بھائی حبیب جالب کے انتقال کی خبر تمام اخباروں میں نمایاں شایع کی گئی تھی۔ لاہور پہنچے، اب ہم ٹیکسی میں سوار مانوس رستوں سے گزر رہے تھے ، رستے اداس تھے ، ویران تھے، مجھے ناصر کاظمی یاد آئے تھے۔
دل تو اپنا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
جالب بھائی کی تدفین والے دن آسمان بھی جی بھر کے رویا تھا۔ اس واقعے کو شاعر اسلم گورداسپوری نے یوں بیان کیا تھا۔
فرط غم حبیب سے ہر سوگوار کی
آنکھوں سے آنسوؤں کی روانی نہ تھم سکی
لپٹی کفن میں میت جالب کو دیکھ کر
کل آسماں کی اشک فشانی نہ تھم سکی
اب جالب بھائی کو آہوں اور سسکیوں کے ساتھ قبر میں اتارا جارہا تھا۔ آسماں بھی کھل کر برس چکا تھا اور اب پھوار پڑرہی تھی، شہر کے ادبا، وکلاء جج صاحبان، سیاسی رہنما، کارکن، مزدور اور عوام شدید بارش کے باوجود کثیر تعداد میں موجود تھے۔ شاعر حبیب جالب کو سپرد خاک کرنے کے منظر کو امجد اسلام امجد نے یوں قلم بند کیا ہے۔
جس آوارہ ، دیوانے کو جالب کہتے تھے
ہستی کی اس راہ گزر سے اب وہ جاتا ہے
اے مٹی، اے ارض وطن، لے اپنی بانہیں کھول
تیری جانب لوٹ کے تیرا شاعر آتا ہے
(سعید پرویز کے کالم سے اقتباس
دل تو اپنا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
جالب بھائی کی تدفین والے دن آسمان بھی جی بھر کے رویا تھا۔ اس واقعے کو شاعر اسلم گورداسپوری نے یوں بیان کیا تھا۔
فرط غم حبیب سے ہر سوگوار کی
آنکھوں سے آنسوؤں کی روانی نہ تھم سکی
لپٹی کفن میں میت جالب کو دیکھ کر
کل آسماں کی اشک فشانی نہ تھم سکی
اب جالب بھائی کو آہوں اور سسکیوں کے ساتھ قبر میں اتارا جارہا تھا۔ آسماں بھی کھل کر برس چکا تھا اور اب پھوار پڑرہی تھی، شہر کے ادبا، وکلاء جج صاحبان، سیاسی رہنما، کارکن، مزدور اور عوام شدید بارش کے باوجود کثیر تعداد میں موجود تھے۔ شاعر حبیب جالب کو سپرد خاک کرنے کے منظر کو امجد اسلام امجد نے یوں قلم بند کیا ہے۔
جس آوارہ ، دیوانے کو جالب کہتے تھے
ہستی کی اس راہ گزر سے اب وہ جاتا ہے
اے مٹی، اے ارض وطن، لے اپنی بانہیں کھول
تیری جانب لوٹ کے تیرا شاعر آتا ہے
(سعید پرویز کے کالم سے اقتباس