Tuesday, 26 May 2015



میں اپنے آپ کو آزاد کرنے والا ہوں__!


ترے خیال کی اس قیدِ با مشقت سے
مرے ویران کمرے میں
کبھی آؤ دکھاؤں میں
دراڑیں سانپ بن کر
کیسے دیواروں سے لپٹی ہیں
کبھی آؤ دکھاؤں
چیونٹیاں لمبی قطاروں میں
مری ہمسائیآں ہو کر
مجھی سے لا تعلّق ہیں
کبھی آؤ دکھاؤں میں
ہوا ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے اَ کر
کس طرح مجھ کو چڑاتی ہے
سحر ہوتے ہی کیسے
روشنی آنکھوں میں چبھ کر
مجھ پہ طنزا مسکراتی ہے
کبھی آؤ دکھاؤں میں
, مرے چاروں طرف بکھرے ہوئے
سگریٹ کے ٹکڑے ہیں
کہ جیسے اک پرانی قبر پر
رکھے ہوئے سوکھے ہوئے پتّے
کبھی آؤ دکھاؤں میں
وہ الماری کہ جو چوپٹ کھلی ہے
اور میں اس میں ڈھونڈتا ہوں کچھ
تو اکثر بھول جاتا ہوں
کہ میں کیا ڈھونڈتا ہوں
اور یہ ٹیڑھا آئینہ
ٹوٹے ہوئے چہرے پہ کیسے چونک اٹھتا ہے
کبھی آؤ دکھاؤں میں
مرے ویران کمرے کے بہت گمنام کونے میں
تمہارے ہجر کے دن سے
یہ دل حیران کتنا ہے
تمھارے بعد یہ کمرہ مرا ویران کتنا ہے

Monday, 25 May 2015

مرے کمرے سے آئینے ہٹا دو___!!!
یہ عورت میرے پیچھے پڑ گئی ہے
لوگ خوش ہیں اسے دے دے کے عبادت کے فریب 
وہ مگر خوب سمجھتا ہے ____خدا ہے وہ بھی!!!

Sunday, 24 May 2015

ﺗﻮﺑﮭﯽ ﺳﺎﺩﮦ ﮬﮯﮐﺒﮭﯽ ﭼﺎﻝ ﺑﺪﻟﺘﺎﮬﯽ ﻧﮩﯿﮟ!
ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﺩﮦ ﮬﻮﮞ ﺍﺳﯽ ﭼﺎﻝ ﻣﯿﮞ آﺟﺎﺗﺎﮬﻮﮞ
معراج فیض آبادی
--
ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے
تیری یادوں کو بھی رُسوا نہیں ہونے دیتے
کچھ تو ہم خود بھی نہیں چاہتے شہرت اپنی
اور کچھ لوگ بھی ایسا نہیں ہونے دیتے
عظمتیں اپنے چراغوں کی بچانے کے لئے
ہم کسی گھر میں اُجالا نہیں ہونے دیتے
آج بھی گاؤں میں کچھ کچے مکانوں والے
گھر میں ہمسائے کے فاقہ نہیں ہونے دیتے
ذکر کرتے ہیں ترا نام نہیں لیتے ہیں
ہم سمندر کو جزیرہ نہیں ہونے دیتے
مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
سفر پہ بھیج کے اسباب مـــار ڈالــــــے گا
وہ آنکھیں بانٹے گا اور خواب مار ڈالے گا
بھنور ، سراب ، بگولے ، چراغ ، پھول ، ھوا
مجھـــے یہ حلقہِٗ احبـــاب مــار ڈالـــــــے گا
تم آ تو جاؤ گے لیکن تمھارے آنے تک
مجھــے میرا دلِ بیتاب مـــار ڈالــے گا
کسی امید نے لُٹنا ھے ساحلِ دل پر
کسی سفینے کو گرداب مار ڈالے گا
کسی بھی لو نے اگر سر اٹھایا بستی میں
چـــــــــراغِ منبر و محــراب مــــار ڈالـــــے گا
مجھ کو معلوم تھا رستے سے پلٹ جائیں گے
میں نے بے کار ہی یکجا کیے بھٹکے ہوئے لوگ
گئے دنوں کا سراغ لیکر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم، نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہ جان، میرے تو دل میں اتر گیا وہ
وہ میکدے کو جگانے والا، وہ رات کی نیند اڑانے والا
نہ جانے کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہیں گھر گیا وہ
کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی، بدل چلا رنگ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ڈھل گئی ہے، جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں، گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا، مثل گرد سفر گیا وہ
بس اک منزل ہے بوالہوس کی، ہزار رستے ہیں اہل دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں، گزر کیا میں ٹھہر گیا وہ
وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تونے منزلوں کا
تیری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارا، وہ ہمنفس ہمسخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا، سنا ہے کل رات مر گیا وہ
بس ایک موتی سی چھب دیکھا کر، بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارا شام بن کے آیا، برنگ خواب سحر گیا وہ
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا، نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں، جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر، وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا، پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
بج اٹھیں تالیاں کہانی پر
دونوں کردار مر گئے آخر ...!
اپنی مجروح اناؤں کو دلاسے دے کر__!
ہاتھ میں کاسہ خیرات لئے پھرتے ہیں

8 psychological tricks in Urdu which will make your life easy || Top 8 psychology tricks

8 psychological tricks in Urdu which will make your life easy || Top 8 psychology tricks https://youtu.be/PnxGaJCLoQw ...