Saturday, 7 February 2015

ہماری تحریریں آپ کو کڑوی اور کسیلی لگتی ہیں۔ مگر اب تک مٹھاسیں آپ کو پیش کی جاتی رپی ہیں۔ ان سے انسانیت کو کیا فائدہ ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیم کے پتے کڑوے سہی، مگر خون ضرور صاف کرتے ہیں۔
(اقتباس: سعادت حسن منٹو کی کتاب "لزت سنگ" کے افسانے "افسانہ نگار اور جنسی مسائل" سے)
دینا میں جتنی لعنتیں ہیں، بھوک ان کی ماں یے۔۔۔۔۔۔بھوک گداگری سکھاتی یے۔ بھوک جرائم کی ترغیب دیتی یے۔ بھوک عصمت فروشی پر مجبور کرتی یے۔ بھوک انتہا پسندی کا سبق دتیی یے۔۔۔۔۔۔۔اس کا حملہ بہت شدید، اس کا وار بہت بھرپور اور اس کا زخم بہت گہرا ہوتا یے۔۔۔۔۔۔بھوک دیوانے پیدا کرتی یے۔ دیوانگی بھوک پیدا نہیں کرتی۔
(اقتباس: سعادت حسن منٹو کی کتاب "لزت سنگ" کے افسانے "افسانہ نگار اور جنسی مسائل" سے)
زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔ اگر آپ اُس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ میں جو بُرائیاں ہیں وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ہنگامہ پسند نہیں۔ میں لوگوں کے خیالات و جزبات میں ہیجان پیدا کرنا نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تہزیب و تمدن کی اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اُسے کپٹرے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔ اس لئے کہ یہ کام میرا نہیں درزیوں کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں۔ لیکن میں تختئہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا سفید چاک استمال کرتا ہوں کہ تختئہ سیاہ کی سیاہی اور بھی زیادہ نمایاں ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میرا خاص انداز، میرا خاص طرز ہے جسے فحش نگاری، ترقی پسندی اور خدا معلوم کیا کیا کچھ کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ لعنت ہو سعادت حسن منٹو پر۔ کم بخت کو گالی بھی سلیقے سے نہیں دی جاتی۔
(اقتباس: سعادت حسن منٹو کی کتاب "منٹو کے افسانے" کے "پیش لفظ" کے صفحہ "13" سے)
انسان ایک دوسرے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں جو غلطی ایک مرد کرتا ہے، دوسرا بھی کرسکتا ہے۔ جب ایک عورت بازار میں دکان لگا کر اپنا جسم بیچ سکتی ہے تو دنیا کی سب عورتیں کر سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن غلط کار انسان نہیں، وہ حالات ہیں جن کی کھیتیوں میں انسان غلطیاں پیدا کرتا ہے اور ان کی فصلیں کاٹتا ہے۔
(اقتباس: سعادت حسن منٹو کی کتاب "لزت سنگ " کے افسانہ "افسانہ نگار اور جنسی مسائل" سے)
کالم: منٹو اور خدا
منٹو میاں، ہم تو ٹھہرے جج، ہمارا تو کام ہی تم جیسے ادبی تخریب کاروں کی گوشمالی کرنا ہے۔
تم کٹہرے میں، ہم کرسی پر، تو ظاہر ہے ہماری تمہاری دشمنی تو سمجھ میں آتی ہے۔ کوئی ملزم منصف کا دوست کیسے ہوسکتا ہے۔ لیکن تم نے تو اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی ناراض کیا۔ فلم پروڈیوسرز بھی تم سے خفا، ادبی نقاد تمہارے خلاف، رُجت پسند تمہارے دشمن، ترقی پسند تم سے بیزار۔
اور تو اور تمہیں لاہور میں نوکری دینے والے مدیر مولانا چراغ حسن حسرت کے بارے میں تم نے اپنا مشہور مضمون ان کی موجودگی میں پڑھا تو انہوں نے فرمایا یہ منٹو کیا بکواس کر رہا ہے۔ اسے چپ کراؤ۔
کیا زندگی میں اتنے دشمن کافی نہیں تھے کہ اپنے خالق سے بھی مقابلہ کرنے بیٹھ گئے وہ کیا کہہ گئے تھے کہ میرے کتبے پر لکھا جائے کہ یہاں منٹو دفن ہے اور ابھی تک سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا۔
وہ تو بھلا ہو تمہارے لواحقین کا جنہوں نے تمہاری بات نہ مانی ورنہ تمہاری قبر کا کتبہ بھی کسی جج کے کٹہرے میں پایا جاتا۔ انہوں نے اچھا کیا کہ غالب کے مصرعے کا حوالہ دیا کہ یہ سعادت حسن منٹو کی قبر ہے جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں تھا۔
غالب کے بہت سارے فوائد ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ باقی لوگوں کی طرح ججوں کو بھی سمجھ نہیں آتا کہ کیا کہہ رہا ہے۔
منٹو میاں سچی بات یہ ہے کہ تمہاری تحریروں سے ہمارے نئے ملک کو ہی نہیں بلکہ ہمارا قدیم مذہب بھی خطرے میں پڑجاتا تھا۔ تمہارے جانے کے بعد تو ہمارا ایمان ہر وقت خطرے میں رہتا ہے۔ کیا کریں معاملات ہی اتنے نازک ہیں۔
تم تو لکھتے تھے، تمہاری کہانیاں لوگ پڑھتے تھے اس لیے ان کا ایمان خطرے میں پڑتا تھا۔ اب تو ہمارے پاس ایسے ایسے کیس آتے ہیں کہ تمہاری کہانیاں بچوں کی الف لیلیٰ لگتی ہیں۔
بلقیس نامی ایک گنوار عورت ہے نہ پڑھ سکتی ہے نہ لکھ سکتی ہے کھیتوں میں دوسری عورتوں سے جھگڑا ہوا پتہ نہیں کیا کہ بیٹھی، سالوں سے کال کوٹھڑی میں بند ہے۔ اب ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ اس نے کیا کیا تھا۔ معلوم کریں گے تو ہم بھی اس جرم کے مرتکب ہوں گے جو اس نے کیا تھا۔ اب اس نے کس شانِ کریمی میں کیا گستاخی کی تھی کچھ پتہ نہیں۔ اب دوسروں کے گناہوں کو ثابت کرتے کرتے خود تو گناہ گار نہیں بن سکتے۔ اس لیے بلقیس کے لیے بھی اور ملک خداداد کے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ وہ کال کوٹھڑی میں ہی بند رہے۔
اب بتاؤ کون ہو گا منٹو جو یہ کہانی لکھ پائے گا۔ شکر کرو جوانی میں اس ذلت کی زندگی سے جان چھوٹی۔ امید ہے اب حوضِ کوثر کے کنارے جی بھر کے پی رہے ہو گے اور اپنے خالق کے ساتھ وہی پرانی بحث چھیڑ کر بیٹھے ہوگے کہ بڑا افسانہ نگار کون ہے۔
(اقتباس: محمد حنیف کے کالم "منٹو اور خدا" سے)
آج میں بہت خوش ہوں‘ میری جیب میں پورے چھ سو روپے موجود ہیں جو میں نے مختلف دوستوں سے شرط لگا کے جیتے ہیں‘ مجھے لگا کہ میں تھوڑی سی کوشش اور کروں تو دو ہزار کی ’’دیہاڑی‘‘ آسانی سے لگا سکتا ہوں‘ یہ سوچتے ہی میں نے اپنے اُردو کے لیکچرار دوست فیصل کو فون کرکے آفس بلا لیا اور پرجوش آواز میں کہا ’’اُردو لکھنا پڑھنا جانتے ہو؟‘‘وہ غصے سے مجھے گھورنے لگا‘ میں نے طنزیہ لہجے میں سوال دوبارہ دہرایا‘ وہ غرایا ’’کیا یہی مذاق کرنے کے لیے بلایا ہے؟‘‘ میں نے قہقہہ لگایا ’’نہیں جانی! بس آج تمہاری اردو کا امتحان لینا ہے‘ بولو کتنے کی شرط لگاتے ہو؟‘‘ فیصل نے دانت پیسے ’’شرط لگانا حرام ہے‘‘۔ اب کی بار میں نے اسے گھورا ’’اگر میں ثابت کردوں کہ شرط حرام نہیں تو ؟؟؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔اس کی آنکھیں پھیل گئیں’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ کرو ثابت‘‘۔ میں نے اطمینان سے کہا ’’کیا نماز کے لیے وضو شرط نہیں‘ کیا شادی کے لیے نکاح شرط نہیں؟؟؟‘‘ میری دلیل سنتے ہی اُس نے پہلے اپنے بال نوچے‘ پھر میز پر پڑا پیپر ویٹ اٹھا کر میرے سر پر دے مارا لیکن میں چوکنا تھا لہذا اس کا نشانہ خطا گیا۔ مجھے ڈیڑھ گھنٹہ اسے سمجھانے میں لگ گیا کہ شرط لگانے سے کچھ نہیں ہوتا ’’چلو اگر تمہیں شرط منظور نہیں تو شرط کا نام انعام رکھ لیتے ہیں‘‘ کچھ بحث و تمہید کے بعد یہ تجویز فیصل کو پسند آگئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ میری جیب میں مزید رقم آنے والی ہے۔ طے پایا کہ اگر فیصل نے اُردو بوجھ لی تو میں اُسے ہزار روپے دوں گا اور اگر وہ ناکام رہا تو اُسے ہزار روپے دینا ہوں گے۔ فیصل کو یقین تھا کہ وہ یہ مقابلہ ہار ہی نہیں سکتا کیونکہ اُردو سے اس کا بڑا پرانا تعلق ہے اور وہ اِس زبان کا ماہر ہے۔ میں نے سرہلایا اور پوچھا ’’کھاتہ ترتیبات‘‘ کسے کہتے ہیں؟ فیصل کا رنگ اُڑ گیا ’’کیا کہا؟ پھر سے کہنا‘‘۔ میں نے اطمینان سے دوبارہ کہا ’’کھاتہ ترتیبات‘‘۔ فیصل سرکھجانے لگا ‘میں مزے سے سیٹی بجارہا تھا‘ اس کی طرف سے جواب میں تاخیر ہوئی تو میں نے اطمینان سے کہا ’’بیٹا اس کا مطلب ہے Account Settings ۔۔۔۔۔۔۔چلواب یہ بتاؤ ’’رازداری رسائی‘‘ کسے کہتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔وہ مزید ہڑبڑا گیا۔۔۔۔۔ ’’یہ کون سی زبان بول رہے ہو؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔میں مسکرایا ’’بیٹا یہ اُردو ہے‘ خالص اُردو‘ اس کا مطلب بھی سن لو‘ اس کا ترجمہ ہے Privacy Settings‘ اب بتاؤ کہ ’’ربط کا اشتراق‘‘ کیا ہوتا ہے؟‘‘ اُس کے پسینے چھوٹ گئے‘ ہکلاکر بولا ’’نہیں پتا‘‘۔ میں نے میز بجایا ’’میرے پیارے اس کا مطلب ہوتا ہے Share link۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ فیصل بے بسی سے اپنی ہتھیلیاں مسلنے لگا۔ میں نے سگریٹ سلگا کر ایک کش لگایا اور آگے کو جھکتے ہوئے پوچھا ’’فیس بک استعمال کرنا جانتے ہو؟‘‘ وہ اچھل پڑا ’’کیا مطلب؟ تم جانتے تو ہو کہ میں چار سال سے فیس بک استعمال کر رہا ہوں‘‘۔ میں نے دھواں اس کے منہ پر پھینکا ’’اچھاتو پھر یہ بتاؤ آخری دفعہ تم نے ’’تجدید کیفیت‘‘ کب کیا تھا؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔فیصل کی آنکھیں پھیل گئیں اور دھاڑ کر بولا ’’میں کوئی تمہاری طرح بے غیرت نہیں‘ میں نے یہ کام کبھی نہیں کیا‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’کون سا کام؟‘‘ وہ گرجا ’’یہی جو تم پوچھ رہے ہو‘‘۔ میں نے قہقہہ لگایا ’’ابے یہ Status Update کی اُردو ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔اچھا یہ بتاؤ تمہارے کتنے ’’پیروکار‘‘ ہیں؟‘‘ یہ سنتے ہی اُس نے مجھے گردن سے دبوچ لیا ’’کیا بکواس کر رہے ہو ‘ میں کوئی پیر بابا ہوں‘ میرے کہاں سے پیروکار آگئے؟؟؟‘‘ میری چیخ نکل گئی‘ میں نے بمشکل اپنی گردن چھڑائی اور دو قدم دور ہٹ کر چلایا ’’کمینے! پیروکار سے مراد ’’Followers ‘‘ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ایک موقع اور دیتا ہوں‘ بتاؤ جب تم فیس بک پر کوئی تصویر لگاتے ہو تو اسے کسی سے ’’منسلک‘‘ کرتے ہو؟۔۔۔۔۔۔ کبھی تمہیں ’’معاونت تختہ‘‘ کی ضرورت پیش آئی؟۔۔۔۔۔۔ تم ’’مجوزہ صفحات‘‘ کھولتے ہو؟۔۔۔۔۔۔۔تم نے کبھی اپنی ’’معلومات کی تجدید‘‘ کی؟۔۔۔۔۔۔کبھی ’’اپنے ’’واقعات زندگی‘‘ کو ’’عوامی‘‘ کرکے ’’پھیلایا؟؟؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔فیصل کے چہرے کے تاثرات عجیب سے ہوگئے تھے‘ یوں لگ رہا تھا جیسے کچھ ہی دیر میں وہ خالق حقیقی سے جاملے گا۔۔۔۔۔۔۔ اس نے میرے سوالوں کے جواب دینے کی بجائے اپنے ناخن چبانے شروع کر دیے۔ میں نے پراعتماد لہجے میں کہا’’۔۔۔۔۔۔تم ہار گئے ہو۔۔۔نکالو ایک ہزار‘‘۔ اُس نے نفی میں سرہلادیا ’’نہیں۔۔۔پہلے ثابت کرو کہ یہ اُردو کہیں استعمال بھی ہوتی ہے‘‘۔ مجھے پتا تھا کہ وہ یہ سوال ضرور کرے گا لہذا اطمینان سے اپنا فیس بک اکاؤنٹ کھول کر فیصل کے سامنے کر دیا جہاں Tag کی اردو ’’منسلک‘‘ لکھی تھی۔ Support Dashboard کو ’’معاونت تختہ‘‘ لکھا ہوا تھا‘ Recommended Pages کا ترجمہ ’’مجوزہ صفحات‘‘ کیا گیا تھا‘ Life events سے مراد ’’واقعاتِ زندگی‘‘ تھے اور Everyone کی اُردو ’’عوامی‘‘ کی شکل میں دستیاب تھی۔ وہ کچھ دیر ہونقوں کی طرح میری ’’اُردو مارکہ فیس بک‘‘ دیکھتا رہا‘ پھر خاموشی سے پرس نکالا‘ پانچ پانچ سو کے دو نوٹ نکال کر میری ٹیبل پر رکھے‘ اپنے آپ کو ایک عجیب و غریب سائنسی قسم کی گالی دی اور تیزی سے باہر نکل گیا۔
مجھے اردو سے بہت محبت ہے‘ اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ میں نے پنجابی بھی بولنی ہو تو اُردو میں بولتا ہوں‘ یہی وجہ ہے کہ جب کسی ’’ جانی دشمن‘‘ نے مجھے بتایا کہ فیس بک اب اُردو میں بھی دستیاب ہے تو میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ میں نے اسی وقت اُس سے طریقہ پوچھا اور فیس بک کو ’’مشرف بہ اردو‘‘ کر لیا۔میرا خیال تھا کہ اُردو قبول کروانے کے بعد فیس بک سے میری شناسائی میں مزید اضافہ ہوجائے گا لیکن جو کچھ سامنے آیا اسے دیکھ کرنہ صرف ہوش اڑ گئے بلکہ دو سال پہلے کا ایک وقوعہ بھی یاد آگیا جب میں نے غلطی سے موبائل کی اُردو آپشن آن کرلی تھی ‘ جو اردو سامنے آئی وہ لگ بھگ فرانسیسی زبان جیسی تھی‘ مجبوراً اپنے جاننے والے ایک ’’محرر‘‘ کو بلوا کر ترجمہ کروایا اور واپس انگلش کی طرف لوٹ گیا۔ فیس بک کی اُردو دیکھ کر بھی یہی حال ہوا‘ لیکن اندر ہی اندر فخر بھی محسوس ہورہا تھا کہ ماشاء اللہ میں اس مقام تک پہنچ گیا ہوں کہ اب مجھے اردو مشکل اور انگلش آسان لگنے لگی ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ اب تک اردو ہماری قومی زبان تو نہ بن سکی لیکن فیس بک کی زبان ضرور بن گئی ہے تاہم فیس بک والے ’’واجب القتل‘‘ قرار دے دینے چاہئیں جنہوں نے ابھی تک بے شمار الفاظ کا اردو ترجمہ نہیں کیا‘ مثلا ٹائم لائن‘ ای میل‘ پاس ورڈ‘ سرچ انجن‘ پروفائل‘ فیس بک‘ کوکیز‘ ایپلی کیشنز‘ موبائل‘ لاگ اِن اور لاگ آؤٹ جیسے بدیسی الفاظ تاحال یہاں موجود ہیں حالانکہ ان کا ترجمہ انتہائی آسان ہے ‘ میری رائے میں ‘ Facebook کو ’’متشکل کتاب‘‘ ۔۔۔Timeline کو ’’وقت کی لکیر‘‘۔۔۔Email کو ’’برقی چٹھی‘‘۔۔۔Password کو’’لفظی گذرگاہ‘‘۔۔۔Cookies کو’’چھان بورا‘‘ ۔۔۔Application کو ’’عرضی‘‘۔۔۔ Mobile کو’’گشتی‘‘ ۔۔۔Search Engine کو ’’مشینی تلاشی‘‘ ۔۔۔Video کو ’’متحرک تصاویر‘‘۔۔۔ Profile کو ’’شخصی ڈھانچہ‘‘۔۔۔ Log out کو ’’خروج‘‘ اور Login کو ’’دخول‘‘ کردینا چاہیے۔ اردو کی ترویج و ترقی کے لیے انگریزی کو بے لباس کرنا بہت ضروری ہے ‘ یقیناً ایسا کرنے سے ہی ہمارے ہاں یکدم ترقی کے دروازے کھل جائیں گے۔ ہم خود کوئی علمی دریافت کریں نہ کریں‘ دوسروں کے علم کی نقل مارنا بلکہ ’’مت مارنا‘‘ ضرور سیکھ جائیں گے۔
(اقتباس: گل نوخیز اختر کا کالم "اُردو آگئی میدان میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے جمالو" )
"خواب"
چاندنی نے رنگِ شب جب زرد کر ڈالا۔۔۔۔تومیں
ایک ایسے شہر سے گزرا۔۔۔۔جہاں
صرف دیواریں نمایاں تھیں
چھتیں معدوم تھیں
اور گلیوں میں فقط سائے رواں تھے
جسم غائب تھے

(شاعر: احمد ندیم قاسمی)

8 psychological tricks in Urdu which will make your life easy || Top 8 psychology tricks

8 psychological tricks in Urdu which will make your life easy || Top 8 psychology tricks https://youtu.be/PnxGaJCLoQw ...