زمانے
کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔ اگر آپ اُس سے ناواقف ہیں تو میرے
افسانے پڑھیے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔ تو اس کا مطلب یہ
ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ میں جو بُرائیاں ہیں وہ
اس عہد کی برائیاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں جس نقص
کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ہنگامہ پسند نہیں۔ میں لوگوں کے خیالات و جزبات میں ہیجان پیدا کرنا
نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تہزیب و تمدن کی اور سوسائٹی
کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اُسے کپٹرے پہنانے کی
کوشش بھی نہیں کرتا۔ اس لئے کہ یہ کام میرا نہیں درزیوں کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں۔ لیکن میں تختئہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں
لکھتا سفید چاک استمال کرتا ہوں کہ تختئہ سیاہ کی سیاہی اور بھی زیادہ
نمایاں ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میرا خاص انداز، میرا خاص طرز ہے جسے فحش
نگاری، ترقی پسندی اور خدا معلوم کیا کیا کچھ کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ لعنت ہو
سعادت حسن منٹو پر۔ کم بخت کو گالی بھی سلیقے سے نہیں دی جاتی۔
(اقتباس: سعادت حسن منٹو کی کتاب "منٹو کے افسانے" کے "پیش لفظ" کے صفحہ "13" سے)
No comments:
Post a Comment