اسلام آباد کے قبرستان میں پروین کو رخصت کرنے والے بہت کم لوگ تھے، اُس کی عزیز داری کراچی میں تھی اور وہاں سے یہاں آج ہی کے دن پہنچنا مشکل تھا، کچھ ادیب تھے اور اُس کے محکمے کے کچھ لوگ۔۔۔
آخری لمحوں میں اُس کے ایک بھائی بھی پہنچ گئے۔۔۔ لیکن اس سے پیشتر یہی مسئلہ در پیش تھا کہ اُسے لحد میں کون اتارے گا کیونکہ کوئی نامحرم ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔ ہم چار پانچ لوگ قبر کی مٹی کے ڈھیر پر کھڑے تھے اور میرے برابر میں افتخار عارف اپنے آپ کو بمشکل سنبھالتے تھے۔
جنازہ تو ہو چکا تھا جو اہل تشیع کے عقیدے کی نمائندگی کرتا تھا۔۔۔
ہم نے کچھ دیر انتظار کیا اس اُلجھن کا شکار رہے کہ اگر اُن کا کوئی نزدیکی عزیز بروقت نہ پہنچا تو پروین کو لحد میں کیسے اتارا جائے گا۔۔۔ مجھے مکمل تفصیل تو یاد نہیں رہی کہ اس کے بھائی کب پہنچے لیکن یہ یاد ہے کہ کسی نے سفید کفن میں لپٹی پروین شاکر کو افتخار عارف کے بڑھے ہوئے ہاتھوں میں دے دیا۔۔۔
افتخار اُسے تھامے ہوئے قبر میں اترنے کو تھے کہ یکدم اُن کا رنگ زرد پڑ گیا، ہاتھ لرزنے لگے۔۔۔ شاید انہیں انجائنا کا درد شروع ہو گیا تھا، انہوں نے یکدم مجھ سے کہا ’’تارڑ ، پروین کو سنبھال لو۔۔۔‘‘ میں نے بازو واکیے اور پروین کے جسد خاکی کو تھام لیا۔۔۔ اور تب میں زندگی کے ایک ناقابل بیان تجربے سے دو چار ہوا جس کے بارے میں اب بھی سوچتا ہوں تو سناٹے میں آجاتا ہوں۔۔۔
پروین دھان پان سی لڑکی تھی، موت کے باوجود وہ بہت بھاری نہ تھی،
میں جان بوجھ کر اُس جانب نہ دیکھتا تھا جدھر اُس کا چہرہ کفن میں بندھا تھا اور پھر میں نے محسوس کیا کہ میرے دائیں ہاتھ کی اُنگلیاں کفن میں روپوش پروین کی مردہ اُنگلیوں پر ہیں، اُنہیں چھو رہی ہیں، انہیں تھام رکھا ہے۔۔۔
میں اُن کی بناوٹ محسوس کر رہا تھا اور اُس لمحے مجھے خیال آیا کہ یہ پروین کا لکھنے والا ہاتھ ہے۔۔۔ انہی اُنگلیوں سے اُس نے وہ سب شعر لکھے جو ایک ز مانے کے دل پسند ہوئے، ایک داستان ہوئے۔ اور پھر مجھے وہ شعر یاد آیا جو ایک خاتون نے لکھ کر مجھے رسوا اور شرمندہ کر دیا تھا، وہ شعر بھی تو انہی انگلیوں نے لکھا تھا۔
اور آج میں انہیں بے جان حالت میں اپنی انگلیوں سے تھامے ہوئے ہوں۔۔۔
یہ لمحہ، یہ کیفیت آج تک میرے بدن پر ثبت ہے، میں آج بھی پروین کی اُنگلیوں کی موت کو محسوس کرتا ہوں۔۔۔ اس دوران پروین کے بھائی کراچی سے آ چکے تھے، مجھ سے لحد میں اترا نہ جاتا تھا، کسی اور شخص نے میری مدد کی اور ہم نے اس کے مردہ بدن کو قبر میں کھڑے اُس کے بھائی یا عزیز کے سپرد کر دیا۔۔۔
مستنصر حسین تارڑ
آخری لمحوں میں اُس کے ایک بھائی بھی پہنچ گئے۔۔۔ لیکن اس سے پیشتر یہی مسئلہ در پیش تھا کہ اُسے لحد میں کون اتارے گا کیونکہ کوئی نامحرم ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔ ہم چار پانچ لوگ قبر کی مٹی کے ڈھیر پر کھڑے تھے اور میرے برابر میں افتخار عارف اپنے آپ کو بمشکل سنبھالتے تھے۔
جنازہ تو ہو چکا تھا جو اہل تشیع کے عقیدے کی نمائندگی کرتا تھا۔۔۔
ہم نے کچھ دیر انتظار کیا اس اُلجھن کا شکار رہے کہ اگر اُن کا کوئی نزدیکی عزیز بروقت نہ پہنچا تو پروین کو لحد میں کیسے اتارا جائے گا۔۔۔ مجھے مکمل تفصیل تو یاد نہیں رہی کہ اس کے بھائی کب پہنچے لیکن یہ یاد ہے کہ کسی نے سفید کفن میں لپٹی پروین شاکر کو افتخار عارف کے بڑھے ہوئے ہاتھوں میں دے دیا۔۔۔
افتخار اُسے تھامے ہوئے قبر میں اترنے کو تھے کہ یکدم اُن کا رنگ زرد پڑ گیا، ہاتھ لرزنے لگے۔۔۔ شاید انہیں انجائنا کا درد شروع ہو گیا تھا، انہوں نے یکدم مجھ سے کہا ’’تارڑ ، پروین کو سنبھال لو۔۔۔‘‘ میں نے بازو واکیے اور پروین کے جسد خاکی کو تھام لیا۔۔۔ اور تب میں زندگی کے ایک ناقابل بیان تجربے سے دو چار ہوا جس کے بارے میں اب بھی سوچتا ہوں تو سناٹے میں آجاتا ہوں۔۔۔
پروین دھان پان سی لڑکی تھی، موت کے باوجود وہ بہت بھاری نہ تھی،
میں جان بوجھ کر اُس جانب نہ دیکھتا تھا جدھر اُس کا چہرہ کفن میں بندھا تھا اور پھر میں نے محسوس کیا کہ میرے دائیں ہاتھ کی اُنگلیاں کفن میں روپوش پروین کی مردہ اُنگلیوں پر ہیں، اُنہیں چھو رہی ہیں، انہیں تھام رکھا ہے۔۔۔
میں اُن کی بناوٹ محسوس کر رہا تھا اور اُس لمحے مجھے خیال آیا کہ یہ پروین کا لکھنے والا ہاتھ ہے۔۔۔ انہی اُنگلیوں سے اُس نے وہ سب شعر لکھے جو ایک ز مانے کے دل پسند ہوئے، ایک داستان ہوئے۔ اور پھر مجھے وہ شعر یاد آیا جو ایک خاتون نے لکھ کر مجھے رسوا اور شرمندہ کر دیا تھا، وہ شعر بھی تو انہی انگلیوں نے لکھا تھا۔
اور آج میں انہیں بے جان حالت میں اپنی انگلیوں سے تھامے ہوئے ہوں۔۔۔
یہ لمحہ، یہ کیفیت آج تک میرے بدن پر ثبت ہے، میں آج بھی پروین کی اُنگلیوں کی موت کو محسوس کرتا ہوں۔۔۔ اس دوران پروین کے بھائی کراچی سے آ چکے تھے، مجھ سے لحد میں اترا نہ جاتا تھا، کسی اور شخص نے میری مدد کی اور ہم نے اس کے مردہ بدن کو قبر میں کھڑے اُس کے بھائی یا عزیز کے سپرد کر دیا۔۔۔
مستنصر حسین تارڑ
No comments:
Post a Comment