دنیا آگ کی مانند ہے اور آگ اپنے پجاری کو بھی جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ اس شکارگاہ میں ہر کوئی شکار ہے کہ ملک الموت جیسا میر شکار کوئی دوسرا نہیں کہ اس کے نشانے سے نہ کوئی بچا نہ آئندہ بچ پائے گا۔ وہ کون ہے جو سرائے کو گھر سمجھ لیتا ہے اور گزرگاہ کو منزل؟
انسان دنیا جمع کرتے وقت یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آخرکار یہ دنیا انہیں منتشر کرکے رکھ دے گی۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا
دنیا… دنائیت سے ہے جس کا مطلب ہی ذلت اور کمینگی ہے۔ خواب کا علم آنکھ کھلنے پر ہوتا ہے اور زندگی کے خواب کا آنکھیں بند ہونے پر کہ یہ تو پانی پر عکس سے بھی زیادہ بے معنی ہے۔ سو یوں رہو جیسے پرندہ انڈے میں رہتا ہے یا سر بانسری میں سوئے ہوتے ہیں۔
خلیفہ واثق باللہ نے مرتے وقت جو شعر پڑھے ان کا ترجمہ کچھ یوں ہوگا کہ ”نہ بازاری لوگ بچیں گے نہ بادشاہ ہی زندہ رہیں گے۔
"غریبوں کو ان کی قبرں نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور امیروں کو ان کی قبریں کوئی راحت نہ پہنچا سکیں۔“
حسن نثار کے کالم "گھر جاندی نے ڈرنا" سے اقتباس
No comments:
Post a Comment