وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
عداوتیں تھیں تغافل تھا رنجشیں تھیں مگر
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بیوفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت اُن آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
ترک تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ کہ آشنائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اپنا دکھ نہ اوروں کا ملال
شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر کبھی اس طرح بھی گزارا نہ تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیر
وہاں بھی آگئے آخر جہاں رسائی نہ تھی
"نصیر ترابی"
No comments:
Post a Comment