یوں تو آپس کی روٹھ راٹھ ، چھوٹی موٹی ناراضگیاں ہمارے درمیان درجنوں بار ویسے ہی ہوئیں جیسے ہر میاں بیوی کے درمیان ہونا چاہیے۔ لیکن ہماری اصل بڑی لڑائی ایک بار ہوئی، اسلام آباد میں ہم نے اپنے ڈرائنگ روم کے لئے قالین خریدنا تھا، میں نے بڑے شوق سے ایک قالین پسند کیا جس کی زمین سفید اور رنگین پھول تھے، عفت نے اُسے یوں مسترد کر دیا جیسے سبزی فروش کو اُلٹے ہاتھوں باسی پالک، مولی، گاجر اور گوبھی کے پھول لوٹا رہی ہو، مجھے بڑا رنج ہوا۔ گھر آ کر میں نے سارا دن اُس سے کوئی بات نہ کی۔
رات کو وہ کہنے لگی
دیکھ تیرا منہ پہلے ہی بڑا گول ہے، جب تُو ناراض ہوتا ہے تو یہ اور بھی گول مٹول ہو جاتا ہے، آج بھلا تُو اتنا ناراض کیوں ہے؟
میں نے قالین کی بات اُٹھائی۔
قالین تو نہایت عمدہ ہے
اُس نے کہا
لیکن ہمارے کام کا نہیں
میں نے پوچھا
کیوں؟
دراصل بات یہ ہے
وہ بولی، جن لوگوں کے لئے یہ قالین بنا ہے، اُن میں سے کوئی ہمارے ہاں نہیں آتا۔
کیا مطلب؟ میں نے تلخی سے دریافت کیا
وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی اور اسکول کی اُستانی کی طرح بڑی وضاحت سے گِن گِن کر سمجھانے لگی کہ ہمارے ہاں ابنِ انشاء آتا ہے، وہ پھسکڑا مار کر فرش پر بیٹھ جاتا ہے، ایک طرف مالٹے، دوسری طرف مونگ پھلی، سامنے گنڈیریوں کا ڈھیر، جمیل الدین عالی آتا ہے، آتے ہی فرش پر لیٹ جاتا ہے اور سگریٹ پر سگریٹ پی کر اُن کی راکھ ایش ٹرے میں نہیں بلکہ اپنے ارد گرد قالین پر بکھیرتا ہے۔ ممتاز مفتی ایک ہاتھ میں کُھلے پان اور دوسرے ہاتھ میں زردے کی پڑیا لئے آتا ہے۔ اشفاق احمد قالین پر اخبار بچھا کر اس پر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔ ملتان سے ایثار راعی آم اور خربوزے لے کر آئے گا، ڈھاکہ سے جسیم الدین کیلے اور رس گُلوں کی ٹپکتی ہوئی ٹوکری لائے گا، وہ یہ سب تحفے لا کر بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں، سال میں کئی بار ممتاز حسین شاہ بی۔ اے، ساٹھ سال کی عمر میں ایم ۔ اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور فاؤنٹین پین چِھڑک چِھڑک کر اپنی پڑھائی کرتا ہے، صرف ایک راجہ شفیع ہے جب کبھی وہ مکئی کی روٹی، سرسوں کا ساگ اور تازہ مکھن اپنے گاؤں سے لے کر آتا ہے تو آتے ہی انہیں قالین پر نہیں اُنڈیلتا بلکہ بڑے قرینے سے باورچی خانے میں جا کر رکھ دیتا ہے، کیونکہ نہ تو وہ شاعر ہے نہ ادیب، فقط ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔ بات نہایت سچی تھی، چناںچہ ہم نے ایک نہایت میل خوردہ قالین خرید کر آپس میں صلح کر لی۔
شہاب نامہ سے اقتباس۔۔ از قدرت اللہ شہاب۔
رات کو وہ کہنے لگی
دیکھ تیرا منہ پہلے ہی بڑا گول ہے، جب تُو ناراض ہوتا ہے تو یہ اور بھی گول مٹول ہو جاتا ہے، آج بھلا تُو اتنا ناراض کیوں ہے؟
میں نے قالین کی بات اُٹھائی۔
قالین تو نہایت عمدہ ہے
اُس نے کہا
لیکن ہمارے کام کا نہیں
میں نے پوچھا
کیوں؟
دراصل بات یہ ہے
وہ بولی، جن لوگوں کے لئے یہ قالین بنا ہے، اُن میں سے کوئی ہمارے ہاں نہیں آتا۔
کیا مطلب؟ میں نے تلخی سے دریافت کیا
وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی اور اسکول کی اُستانی کی طرح بڑی وضاحت سے گِن گِن کر سمجھانے لگی کہ ہمارے ہاں ابنِ انشاء آتا ہے، وہ پھسکڑا مار کر فرش پر بیٹھ جاتا ہے، ایک طرف مالٹے، دوسری طرف مونگ پھلی، سامنے گنڈیریوں کا ڈھیر، جمیل الدین عالی آتا ہے، آتے ہی فرش پر لیٹ جاتا ہے اور سگریٹ پر سگریٹ پی کر اُن کی راکھ ایش ٹرے میں نہیں بلکہ اپنے ارد گرد قالین پر بکھیرتا ہے۔ ممتاز مفتی ایک ہاتھ میں کُھلے پان اور دوسرے ہاتھ میں زردے کی پڑیا لئے آتا ہے۔ اشفاق احمد قالین پر اخبار بچھا کر اس پر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔ ملتان سے ایثار راعی آم اور خربوزے لے کر آئے گا، ڈھاکہ سے جسیم الدین کیلے اور رس گُلوں کی ٹپکتی ہوئی ٹوکری لائے گا، وہ یہ سب تحفے لا کر بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں، سال میں کئی بار ممتاز حسین شاہ بی۔ اے، ساٹھ سال کی عمر میں ایم ۔ اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور فاؤنٹین پین چِھڑک چِھڑک کر اپنی پڑھائی کرتا ہے، صرف ایک راجہ شفیع ہے جب کبھی وہ مکئی کی روٹی، سرسوں کا ساگ اور تازہ مکھن اپنے گاؤں سے لے کر آتا ہے تو آتے ہی انہیں قالین پر نہیں اُنڈیلتا بلکہ بڑے قرینے سے باورچی خانے میں جا کر رکھ دیتا ہے، کیونکہ نہ تو وہ شاعر ہے نہ ادیب، فقط ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔ بات نہایت سچی تھی، چناںچہ ہم نے ایک نہایت میل خوردہ قالین خرید کر آپس میں صلح کر لی۔
شہاب نامہ سے اقتباس۔۔ از قدرت اللہ شہاب۔
No comments:
Post a Comment