Saturday, 25 April 2015


بند باہر سے مری ذات کا در ہے مجھ میں
میں نہیں خود میں، یہ اک عام خبر ہے مجھ میں
اک عجب آمد و شُد ہے کہ نہ ماضی ہے نہ حال
جونؔ، برپا کئی نسلوں کا سفر ہے مجھ میں
ہے مری عمر، جو حیران تماشائی ہے
اور اک لمحہ ہے جو زیر و زبر ہے مجھ میں
کیا ترستا ہوں کہ باہر کے کسی کام آئے
وہ اک انبوہ کہ بس خاک بسر ہے مجھ میں
ڈوبنے والوں کے دریا ملے پایاب مجھے
اس میں اب ڈوب رہا ہوں جو بھنور ہے مجھ میں
در و دیوار تو باہر کے ہیں ڈھینے والے
چاہے رہتا نہیں میں، پر مرا گھر ہے مجھ میں
میں جو پیکار میں اندر کی ہوں بے تیغ و زِرہ
آخرش کون ہے جو سینہ سِپر ہے مجھ میں
معرکہ گرم ہے بے طَور سا کوئی ہر دَم
نہ کوئی تیغ سلامت، نہ سِپر ہے مجھ میں
زخم ہا زخم ہوں اور کوئی نہیں خوں کا نشاں
کون ہے وہ جو مرے خون میں تر ہے مجھ میں
جونؔ ایلیا

لا اِدھر ہاتھ
کہ ہم درد کی اس ڈوبتی ناؤ سے اُتر کر
چلیں اُس پار
جہاں کوچہ و بازار نہ ہوں
درد کے آثار نہ ہوں
در و دیوار اگر ہوں بھی
تو اُن میں
ترے آنسو، مرے آزار نہ ہوں___!!!

جہاں سات آٹھ عورتیں جمع ھوں تو سب بیک وقت بولتی ھیں اور اچنبھے کی بات یہ ھے کہ بولتے میں سب کچھ سُن بھی لیتی ھیں۔
”مُشتاق اَحمد یُوسفی“
                                                                                   


جانے کیا واقعہ ہوا، کیوں لوگ                                                                                       

اپنے اندر نہیں رہے آباد   

                                       
کیا خوب مزا تھا جینے میں، اک زخم چھپا تھا سینے میں
اس زخم کو کھرچا ناخن سے اور خون بہا کر رقص کیا !
وہ جب نہ ملا محرابوں میں جسے ڈھونڈ رہے تھے خوابوں میں
سجدے سے اٹھایا سر اپنا اور ہاتھ اٹھا کر رقص کیا !

Friday, 24 April 2015

تو ذوق_ تماشہ پیدا کر__!
ہم روز تماشہ کر لیں گے !!

Monday, 6 April 2015


شامِ غم کچھ اُس نگاہِ ناز کی باتیں کرو
بےخودی بڑھتی چلی ہے، راز کی باتیں کرو
یہ سکوتِ ناز، یہ دل کی رگوں کا ٹُوٹنا
خامشی میں کچھ شکستِ ساز کی باتیں کرو
نکہتِ زلفِ پریشاں، داستانِ شامِ غم
صبح ہونے تک اِسی انداز کی باتیں کرو
عشق رُسوا ہو چلا، بے کیف سا، بے زار سا
آج اُس کی نرگسِ غمّاز کی باتیں کرو
نام بھی لینا ہے جس کا اِک جہانِ رنگ و بُو
دوستو اُس نو بہارِ ناز کی باتیں کرو
ہر رگِ دل وجد میں آتی رہے، دُکھتی رہے
یونہی اُس کے جا و بے جا ناز کی باتیں کرو
جو عدم کی جان ہے، جو ہے پیامِ زندگی
اُس سکوتِ راز، اُس آواز کی باتیں کرو
کس لئے عذرِ تغافُل، کس لئے الزامِ عشق
آج چرخِ تفرقہ پرداز کی باتیں کرو
کُچھ قفس کی تیلیوں سے چھَن رہا ہے نُور سا
کُچھ فضا، کُچھ حسرتِ پرواز کی باتیں کرو
جو حیاتِ جاوداں ہے، جو ہے مرگِ ناگہاں
آج کچھ اُس ناز، اُس انداز کی باتیں کرو
جس کی فُرقت نے پلٹ دی عشق کی کایا فراق
آج اس عیسیٰ نفس دم ساز کی باتیں کرو
"یک طرفہ محبت میں دو بڑے فائدے ہیں - ایک تو یہ کہ اس میں ناکامی کا اندیشہ نہیں- دوسرا یہ کہ اس کا دورانیہ کسی دوسرے کی مرضی پر منحصر نہیں- آپ جتنی دیر اس میں مبتلا رہنا چاہیں، بلا کھٹکے رہ سکتے ہیں- دو طرفہ محبت میں عاشق مزاج لوگوں کو ایک خدشے بلکہ کھلے خطرے کا سامنا ہوتا ہے- ذرا بھی غفلت برتیں تو نکاح کی صورت پیدا ہو جاتی ہے......!!"
(مشتاق احمد یوسفی)

Saturday, 4 April 2015

”ایکسٹسی“
دو سوندھے سوندھے سے جسم جس وقت
ایک مُٹھی میں سو رھے تھے
لبوں کی مدھم طویل سرگوشیوں میں
سانسیں اُلجھ گئی تھیں.
مُندے ھُوئے ساحلوں پہ
جیسے کہیں بہت دُور
ٹھنڈا ساون برس رھا تھا
بس ایک ھی رُوح جاگتی تھی
بتا تو اس وقت مَیں کہاں تھا ؟
بتا تو اس وقت تُو کہاں تھی ؟
”گُلزار“

محبتوں میں اذّیت شناس کتنی تھیں
بچھڑتے وقت وہ آنکھیں اُداس کتنی تھیں
فلک سے جن میں اُترتے ھیں قافلے غم کے
مری طرح وہ شبیں اُس کو راس کتنی تھیں
غلاف جن کی لحد پر چڑھائے جاتے ھیں
وہ ھستیاں بھی کبھی بے لباس کتنی تھیں؟
بچھڑ کے تجھ سے کسی طور دِل بہل نہ سکا
نِشانیاں بھی تری میرے پاس کتنی تھیں
اُتر کے دل میں بھی آنکھیں اُداس لوگوں کی
اسیرِ وھم و رھینِ ھراس کتنی تھیں
وہ صُورتیں جو نکھرتی تھیں میرے اشکوں سے
بچھڑ کے پھر نہ ملیں ، ناسپاس کتنی تھیں
جو اُس کو دیکھتے رھنے میں کٹ گئیں محسن
وہ ساعتیں بھی محیطِ حواس کتنی تھیں ؟
”مُحسن نقوی“

مـــــیں ہــوں مشتاق جــفا مجھ پــے جـفا اور سـہی
تـــم ہو بـــیداد مــیں خوش اس سے سـوا اور سـہی
کـــیوں نـــہ فردوس مـیں دوزخ کـو ملا لیـں یـا رب
سیــر کے واسطـــے تھوڑی ســی فــضا اور سہــی
(مرزا اسداللہ خان غالب)

فیض کا کمال ھی یہی ھے کہ ان کی نظم کا آغاز چاھے کتنا دُکھی یا نا اُمیدی سے بھرا ھو , وھی نظم ایک اُمید دلاتے ھوئے اور ھمیشہ ایک Positive Note پر ختم ھوتی ھے۔
”اِس وقت تو یُوں لگتا هے“
اس وقت تو یوں لگتا هے
اب کچھ بھی نہیں هے
مہتاب نہ سورج
نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ
کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناهوں میں
کسی درد کا ڈیرا
ممکن هے کوئی وہم تھا
ممکن هے سنا هو
گلیوں میں کسی چاپ کا
اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے
گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا
نہ کوئی خواب بسیرا
اک بَیر، نہ اک مہر
نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا
نہ پرایا ، کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی
سخت کڑی هے
لیکن مرے دل !!
یہ تو فقط اک هی گھڑی هے
همت کرو جینے کو تو
اک عمر پڑی هے
”فیض احمد فیض“
میو هسپتال، لاہور
4، مارچ 82ء

"خواب"
چاندنی نے رنگِ شب جب زرد کر ڈالا۔۔۔۔تومیں
ایک ایسے شہر سے گزرا۔۔۔۔جہاں
صرف دیواریں نمایاں تھیں
چھتیں معدوم تھیں
اور گلیوں میں فقط سائے رواں تھے
جسم غائب تھے
(شاعر: احمد ندیم قاسمی)
محبت ہے ہمیں اک دوسرے سے
یہ آپس میں بتانا پڑ رہا ہے
(شاعرہ: شبنم شکیل)

8 psychological tricks in Urdu which will make your life easy || Top 8 psychology tricks

8 psychological tricks in Urdu which will make your life easy || Top 8 psychology tricks https://youtu.be/PnxGaJCLoQw ...