محبتوں میں اذّیت شناس کتنی تھیں
بچھڑتے وقت وہ آنکھیں اُداس کتنی تھیں
بچھڑتے وقت وہ آنکھیں اُداس کتنی تھیں
فلک سے جن میں اُترتے ھیں قافلے غم کے
مری طرح وہ شبیں اُس کو راس کتنی تھیں
مری طرح وہ شبیں اُس کو راس کتنی تھیں
غلاف جن کی لحد پر چڑھائے جاتے ھیں
وہ ھستیاں بھی کبھی بے لباس کتنی تھیں؟
وہ ھستیاں بھی کبھی بے لباس کتنی تھیں؟
بچھڑ کے تجھ سے کسی طور دِل بہل نہ سکا
نِشانیاں بھی تری میرے پاس کتنی تھیں
نِشانیاں بھی تری میرے پاس کتنی تھیں
اُتر کے دل میں بھی آنکھیں اُداس لوگوں کی
اسیرِ وھم و رھینِ ھراس کتنی تھیں
اسیرِ وھم و رھینِ ھراس کتنی تھیں
وہ صُورتیں جو نکھرتی تھیں میرے اشکوں سے
بچھڑ کے پھر نہ ملیں ، ناسپاس کتنی تھیں
بچھڑ کے پھر نہ ملیں ، ناسپاس کتنی تھیں
جو اُس کو دیکھتے رھنے میں کٹ گئیں محسن
وہ ساعتیں بھی محیطِ حواس کتنی تھیں ؟
وہ ساعتیں بھی محیطِ حواس کتنی تھیں ؟
”مُحسن نقوی“
No comments:
Post a Comment