فیض کا کمال ھی یہی ھے کہ ان کی نظم کا آغاز چاھے کتنا دُکھی یا نا اُمیدی سے بھرا ھو , وھی نظم ایک اُمید دلاتے ھوئے اور ھمیشہ ایک Positive Note پر ختم ھوتی ھے۔
”اِس وقت تو یُوں لگتا هے“
اس وقت تو یوں لگتا هے
اب کچھ بھی نہیں هے
مہتاب نہ سورج
نہ اندھیرا نہ سویرا
اب کچھ بھی نہیں هے
مہتاب نہ سورج
نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ
کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناهوں میں
کسی درد کا ڈیرا
کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناهوں میں
کسی درد کا ڈیرا
ممکن هے کوئی وہم تھا
ممکن هے سنا هو
گلیوں میں کسی چاپ کا
اک آخری پھیرا
ممکن هے سنا هو
گلیوں میں کسی چاپ کا
اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے
گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا
نہ کوئی خواب بسیرا
گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا
نہ کوئی خواب بسیرا
اک بَیر، نہ اک مہر
نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا
نہ پرایا ، کوئی میرا
نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا
نہ پرایا ، کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی
سخت کڑی هے
سخت کڑی هے
لیکن مرے دل !!
یہ تو فقط اک هی گھڑی هے
یہ تو فقط اک هی گھڑی هے
همت کرو جینے کو تو
اک عمر پڑی هے
اک عمر پڑی هے
”فیض احمد فیض“
میو هسپتال، لاہور
4، مارچ 82ء
4، مارچ 82ء
No comments:
Post a Comment