شکست
اپنے سینے سے لگائے ہوئے اُمید کی لاش
مدتوں زیست کو ناشاد کیا ہے میں نے
تو نے تو ایک ہی صدمے سے کیا تھا دوچار
دل کو ہر طرح سے برباد کیا ہے میں نے
جب بھی راہوں میں نظر آئے حریری ملبوس
سرد آہوں میں تجھے یاد کیا ہے میں نے
مدتوں زیست کو ناشاد کیا ہے میں نے
تو نے تو ایک ہی صدمے سے کیا تھا دوچار
دل کو ہر طرح سے برباد کیا ہے میں نے
جب بھی راہوں میں نظر آئے حریری ملبوس
سرد آہوں میں تجھے یاد کیا ہے میں نے
اور اب جب کہ مری روح کی پہنائی میں
ایک سنسان سی مغموم گھٹا چھائی ہے
تو دمکتے ہوئے عارض کی شعائیں لے کر
گل شدہ شمعیں جلانے کو چلی آئی ہے
ایک سنسان سی مغموم گھٹا چھائی ہے
تو دمکتے ہوئے عارض کی شعائیں لے کر
گل شدہ شمعیں جلانے کو چلی آئی ہے
میری محبوب __ یہ ہنگامہء تجدیدِ وفا
میری افسردہ جوانی کے لیے راس نہیں
میں نے جو پھول چنے تھے ترے قدموں کے لیے
اُن کا دھندلا سا تصور بھی میرے پاس نہیں
میری افسردہ جوانی کے لیے راس نہیں
میں نے جو پھول چنے تھے ترے قدموں کے لیے
اُن کا دھندلا سا تصور بھی میرے پاس نہیں
ایک یخ بستہ اُداسی ہے دل و جاں پہ محیط
اب مری روح میں باقی ہے ___ نہ امید ___ نہ جوش
رہ گیا دب کے گراں بار سلاسل کے تلے
میری درماندہ جوانی کی اُمنگوں کا خروش
اب مری روح میں باقی ہے ___ نہ امید ___ نہ جوش
رہ گیا دب کے گراں بار سلاسل کے تلے
میری درماندہ جوانی کی اُمنگوں کا خروش
ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں
سایہ ابرِ گریزاں سے مجھے کیا لینا
بُجھ چکے ہیں مرے سینے میں محبت کے کنول
اب ترے حسنِ پشیماں سے مجھے کیا لینا
سایہ ابرِ گریزاں سے مجھے کیا لینا
بُجھ چکے ہیں مرے سینے میں محبت کے کنول
اب ترے حسنِ پشیماں سے مجھے کیا لینا
تیرے عارض پہ یہ ڈھلکے ہوئے سیمیں آنسو
میری افسردگیء غم کا مداوا تو نہیں
تیری محبوب نگاہوں کا پیامِ تجدید
اِک تلافی ہی سہی ___ میری تمنا تو نہیں
میری افسردگیء غم کا مداوا تو نہیں
تیری محبوب نگاہوں کا پیامِ تجدید
اِک تلافی ہی سہی ___ میری تمنا تو نہیں
(ساحر لدھیانوی)
No comments:
Post a Comment