Tuesday, 23 September 2014


اللہ دکھ بھری داستان کو بڑے دھیان سے سنتا ہے ۔ کچھ غم مٹا بھی دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کچھ الجھنیں سلجھا بھی دیتا ہے ۔۔ ۔ ۔ لیکن اگر سارے ہی غم سلجھ جائیں تو آدمی اور اس میں بات چیت بند ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ بیماری نہ ہو تو کوئی ڈاکٹر کے پاس کیوں جائے ؟ جھگڑا نہ ہو تو وکیل کس کام کا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ بس خود ہی مصیبت بھیجتا ہے اور خود ہی ثالث بن جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔اگر زندگی میں راحت ہی راحت ہو چین ہی چین ہو تو کون اس کا در کھٹکھٹائے کون اس سے باتیں کرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بانو قدسیہ

ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور شاعر گلزار کے تحریر کردہ مشہور ٹی وی سیریل 'غالب' کو ناول کی صورت میں پاکستان میں بھی شائع کر دیا گیا ہے۔

اردو کے نامور شاعر، خوبصورت فلمی گیتوں اور مکالموں کے خالق، افسانہ نگار و ناقابلِ فراموش فلموں کے ہدایتکار گلزار آج بھی کسی نہ کسی نئے میدان میں اترتے ہیں اور وہاں بھی جھنڈے گاڑ دیتے ہیں۔

گلزار نے کچھ سال پہلے اپنے محبوب شاعر 'مرزا غالب' پر ایک ٹیلی وژن سیریل بنایا تھا جس میں نصیر الدین شاہ نے مرزا اسد اللہ خان غالب کا کردار ادا کیا تھا جبکہ اس میں شامل غزلیات جگجیت سنگھ کی آواز میں ریکارڈ کی گئی تھیں۔

مشہور شاعر گلزار نے کچھ عرصہ پہلے ہی اُس کامیاب ٹی وی سیریل کے منظر نامے کو ایک ناول کی شکل دی ہے جبکہ ان کی یہ تخلیق 'غالب' کے نام سے ہندوستان میں ہندی اور اردو میں شائع ہوئی جبکہ حال ہی میں اسے پاکستان کے ایک ناشر مکتبۂ دانیال نے شائع کیا ہے۔

مکتبہ دانیال ادارہ فیض، قرۃ العین حیدر، کیفی اعظمی، مشتاق یوسفی، جاوید اختر اور گلزار کی بھی نثر اور نظم کے شاہپارے شائع کر چکا ہے۔
مرزا غالب پر لکھے جانے والا یہ ناول پاکستان میں مکتبۂ دانیال کراچی (فون نمبر 021-35681457) سے حاصل کیا جا سکتا ہے

میر تقی میر کی قناعت اور بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ وہ جب گھر سے باہر جاتے تو تمام دروازے کھلے چھوڑ جاتے، اور جب گھر واپس آتے تو تمام دروازے بند کر لیتے ایک دفعہ ان کے ایک دوست نے ان سے ایسے طرز عمل کی وجہ پوچھی تو انھوں نے جواب دیا

"میں ہی تو اس گھر کا واحد دھن اور مال ہوں میرے سوا اس گھر میں رکھا ہی کیا ہے"

میر ہمیشہ تلاش معاش میں ہی سرگرداں رہے اور کبھی با فراغت زندگی بسر نہ ہوئی۔ ان حالات میں شگفتہ مزاجی تو دور کی بات بھرم قائم رکھنا ہی دو بھر ہو جاتا ہے۔ انہی مصائب کے دنوں میں میر کی بیٹی اپنی شادی کے کچھ ہی دنوں بعد انتقال کر گئی۔ میر حالات کی چکی میں پسنے والے کی طرح تڑپ اٹھے اور جنازے پر کھڑے ہو کر کہا

اب آیا خیال ______ اے آرام جاں اس نامرادی میں
کفن دینا تمہیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں

آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک 
کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے ، لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک

غمِ ہستی کا ، اسدؔ ! کس سے ہو جُز مرگ ، علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

مرزا ادللہ خان غالب

میر تقی میر نے محض نو برس کی عمر میں یتیمی کا صدمہ جھیلا۔ بچپن میں والد کی وفات اور پھر چچا کی وفات معاشی مشکلات عشق میں ناکامی اور ملک کے حالات۔ غرض میر تقی میر کی اٹھاسی سالہ زندگی کا محور الم تھا۔ یہ محرومیوں کی ایسی طویل داستان ہے جس میں مفلسی ، رنج و محن، بے دماغی، ناکامی عشق و جنون وغیرہ مختلف ابواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نامساعد حالات اورمعاشی پریشانیوں نے جس ذہنی کرب میں مبتلا رکھا۔ اس کی بنا پر تخلیقی انا اور اس سے وابستہ نفسی پندار ہی زندگی کا سہارا بنا۔ میر نےساری زندگی تکلیفوں میں گزاری اس لیے ان کی شاعری میں غم اور الم کا عنصر نمایاں ہےجیسا کہ وہ خود کہتے ہیں:

مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا

8 psychological tricks in Urdu which will make your life easy || Top 8 psychology tricks

8 psychological tricks in Urdu which will make your life easy || Top 8 psychology tricks https://youtu.be/PnxGaJCLoQw ...