میر تقی میر نے محض نو برس کی عمر میں یتیمی کا صدمہ جھیلا۔ بچپن میں والد کی وفات اور پھر چچا کی وفات معاشی مشکلات عشق میں ناکامی اور ملک کے حالات۔ غرض میر تقی میر کی اٹھاسی سالہ زندگی کا محور الم تھا۔ یہ محرومیوں کی ایسی طویل داستان ہے جس میں مفلسی ، رنج و محن، بے دماغی، ناکامی عشق و جنون وغیرہ مختلف ابواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نامساعد حالات اورمعاشی پریشانیوں نے جس ذہنی کرب میں مبتلا رکھا۔ اس کی بنا پر تخلیقی انا اور اس سے وابستہ نفسی پندار ہی زندگی کا سہارا بنا۔ میر نےساری زندگی تکلیفوں میں گزاری اس لیے ان کی شاعری میں غم اور الم کا عنصر نمایاں ہےجیسا کہ وہ خود کہتے ہیں:
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا
No comments:
Post a Comment