Saturday, 8 November 2014


آج سے پانچ برس پہلے کہنے کو ایک شاعر میرے ساتھ فیملی پلاننگ میں سروس کرتا تھا ۔ میں بہت بانماز ہوتی تھی ۔ گھر سے آفس تک کا راستہ بڑی مشکل سے یاد کیا تھا ۔ لکھنے پڑھنے سے بالکل شوق نہیں تھا۔ اتنا ضرور پتہ تھا ۔ شاعر لوگ بڑے ہوتے ہیں ۔

ایک شام شاعر صاحب نے کہا مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ پھر ایک روز ریستوراں میں ملاقات ہوئی۔ اُس نے کہا شادی کرو گی؟ دوسری ملاقات میں شادی طے ہو گئی۔ اَب قاضی کے لئے پیسے نہیں تھے۔ میں نے کہا ۔ آدھی فیس تم قرض لے لو اور آدھی فیس میں قرض لیتی ہوں۔ چونکہ گھر والے شریک نہیں ہوں گے میری طرف کے گواہ بھی لیتے آنا۔

ایک دوست سے میں نے اُدھار کپڑے مانگے اور مقررہ جگہ پر پہنچی اور نکاح ہو گیا۔ قاضی صاحب نے فیس کے علاوہ میٹھائی کا ڈبہ بھی منگوالیا تو ہمارے پاس چھ روپے بچے۔

باقی جھنپڑی پہنچتے پہنچتے ، دو روپے، بچے ۔ میں لالٹین کی روشنی میں گھونگھٹ کاڑھے بیٹھی تھی۔ شاعر نے کہا ، دو روپے ہوں گے، باہر میرے دوست بغیر کرائے کے بیٹھے ہیں۔ میں نے دو روپے دے دئے۔ پھر کہا ! ہمارے ہاں بیوی نوکری نہیں کرتی۔ نوکری سے بھی ہاتھ دھوئے۔

گھر میں روز تعلیم یافتہ شاعر اور نقاد آتے اور ایلیٹ کی طرح بولتے۔ کم از کم میرے خمیر میں علم کی وحشت تو تھی ہی لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی بُھوک برداشت نہ ہوتی ۔

روز گھر میں فلسفے پکتے اور ہم منطق کھاتے۔

ایک روز جھونپڑی سے بھی نکال دیئے گئے، یہ بھی پرائی تھی۔ ایک آدھا مکان کرائے پر لے لیا۔ میں چٹائی پر لیٹی دیواریں گِنا کرتی ۔ اور اپنے جہل کا اکثر شکار رہتی۔

مجھے ساتواں مہینہ ہوا۔ درد شدید تھا اور بان کا درد بھی شدید تھا ۔ عِلم کے غرور میں وہ آنکھ جھپکے بغیر چلا گیا۔ جب اور درد شدید ہوا تو مالِک مکان میری چیخیں سُنتی ہوئی آئی اور مجھے ہسپتال چھوڑ آئی ۔ میرے ہاتھ میں درد اور پانچ کڑکڑاتے ہوئے نوٹ تھے۔

تھوڑی دیر کے بعد لڑکا پیدا ہوا۔ سردی شدید تھی اور ایک تولیہ بھی بچے کو لپیٹنے کے لئے نہیں تھا۔ ڈاکٹر نے میرے برابر اسٹریچر پر بچے کو لِٹا دیا پانچ منٹ کے لئے بچے نے آنکھیں کھولیں اور کفن کمانے چلا گیا۔

بس ! جب سے میرے جسم میں آنکھیں بھری ہوئی ہیں۔ Sister وارڈ میں مجھے لٹا گئی۔ میں نے Sister سے کہا میں گھر جانا چاہتی ہوں کیونکہ گھر میں کسی کو عِلم نہیں کہ میں کہاں ہوں ۔ اُس نے بے باکی سے مجھے دیکھا اور کہا ، تنہارے جسم میں ویسے بھی زہر پھیلنے کا کا ڈر ہے ۔ تم بستر پر رہو ۔ لیکن اب آرام تو کہیں بھی نہیں تھا۔

میرے پاس مُردہ بچہ اور پانچ رُوپے تھے۔

میں نے Sister سے کہا ، میرے لئے اب مشکل ہے ہسپتال میں رہنا۔ میرے پاس فیس کے پیسے نہیں ہیں میں لے کر آتی ہوں، بھاگوں گی نہیں۔

تمہارے پاس میرا مُردہ بچہ امانت ہے، اور سیڑھیوں سے اُتر گئی۔ مجھے 105 ڈگری بُخار تھا۔ بس پر سوار ہوئی ، گھر پہنچی۔ میرے پستانوں سے دُودھ بہہ رہا تھا ۔میں دودھ گلاس میں بھر کر رکھ دیا ۔ اتنے میں شاعر اور باقی منشی حضرات تشریف لائے ۔ میں نے شاعر سے کہا ، لڑکا پیدا ہوا تھا ، مَر گیا ہے۔

اُس نے سرسری سنا اور نقادوں کو بتایا۔ کمرے میں دو منٹ خاموشی رہی اور تیسرے منٹ گفتگو شروع ہوگئی !

فرائڈ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟
راں بو کیا کہتا ہے ؟
سعدی نے کیا کہا ہے ؟
اور وارث شاہ بہت بڑا آدمی تھا ۔

یہ باتیں تو روز ہی سُنتی تھی لیکن آج لفظ کُچھ زیادہ ہی سُنائی دے رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا ! جیسے یہ سارے بڑے لوگ تھوڑی دیر کے لئے میرے لہو میں رُکے ہوں، اور راں بو اور فرائڈ میرے رحم سے میرا بچہ نوچ رہے ہوں۔ اُس روز علم میرے گھر پہلی بار آیا تھا اور میرے لہُو میں قہقہے لگا رہا تھا ۔ میرے بچے کا جنم دیکھو !!!

چنانچہ ایک گھنٹے کی گفتگو رہی اور خاموشی آنکھ لٹکائے مجھے دیکھتی رہی۔ یہ لوگ عِلم کے نالے عبُور کرتے کمرے سے جُدا ہوگئے۔

میں سیڑھیوں سے ایک چیخ کی طرح اُتری۔ اب میرے ہاتھ میں تین رُوپے تھے ۔ میں ایک دوست کے ہاں پہنچی اور تین سو روپے قرض مانگے ۔ اُس نے دے دیئے ۔ پھر اُس نے دیکھتے ہوئے کہا ! کیا تمہاری طبیعت خراب ہے ؟

میں نے کہا ، بس مجھے ذرا ا بخار ہے ، میں زیادہ دیر رُک نہیں سکتی پیسے کسی قرض خواہ کو دینے ہیں ، وہ میرا انتظار کر رہا ہوگا۔ ہسپتال پہنچی ۔ بِل 295 روپے بنا۔ اب میرے پاس پھر مُردہ بچہ اور پانچ روپے تھے۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا۔ آپ لوگ چندہ اکٹھا کر کے بچے کو کفن دیں، اور اِس کی قبر کہیں بھی بنا دیں۔ میں جارہی ہوں۔ بچے کی اصل قبر تو میرے دل میں بَن چکی تھی۔

میں پھر دوہری چیخ کے ساتھ سیڑھیوں سے اُتری اور ننگے پیر سڑک پہ دوڑتی ہوئی بس میں سوار ہوئی۔

ڈاکٹر نے سمجھا شاید صدمے کی وجہ سے میں ذہنی توازن کھو بیٹھی ہوں۔ کنڈکٹر نے مجھ سے ٹکٹ نہیں مانگا اور لوگ بھی ایسے ہی دیکھ رہے تھے۔ میں بس سے اُتری، کنڈکٹر کے ہاتھ پر پانچ روپے رکھتے ہوئے ، چل نکلی۔ گھر ؟ گھر!! گھر پہنچی۔

گلاس میں دودھ رکھا ہوا تھا۔ کفن سے بھی زیادہ اُجلا۔

میں نے اپنے دودھ کی قسم کھائی ۔ شعر میں لکھوں گی، شاعری میں کروں گی، میں شاعرہ کہلاؤں گی۔اور دودھ باسی ہونے سے پہلے ہی میں نے ایک نظم لکھ لی تھی، لیکن تیسری بات جھوٹ ہے، میں شاعرہ نہیں ہوں۔ مجھے کوئی شاعرہ نہ کہے۔ شاید میں کبھی اپنے بچے کو کفن دے سکوں۔

آج چاروں طرف سے شاعرہ! شاعرہ! کی آوازیں آتی ہیں، لیکن ابھی تک کفن کے پیسے پُورے نہیں ہوئے۔

(سارا شگفتہ بزبانِ خود ــــــــــــــــ پہلا حرف)

بیٹے کے لیے ایک نظم

میری مٹی تمہیں دیکھتی تھی
اور بیج کادردشدید تھا
تمہارا موزہ کھیتوں میں اُگ چکاتھا
میرے پاٴوں پر مٹی بھاری ہوٴی
سرگوشیوں میں پھول اُگے
دریاجنگل چرالاٴے
چھاٴوں میں نے بچھادی
اور تمہاری خوشبو پھولوں میں پڑگٴی تھی
مٹی میرے گھر مبارک باد دینے آٴٴی
پھول اور ستارے
کیاری کا دل دھڑکارہے تھے
شاخیں مٹی کوچومتیں
میں نے ایک پیڑتراشا
اور تیراجھولابنایا
کیا خبر تھی شاخوں کے لیے کوٴی پیڑ نہ رہے گا
پرندے مٹی پہ بسیرا کربیٹھے
‘’ مٹی نے گھونگٹ نکالاتو قبر نے مجھے ماں کہہ دیا إ’’
‘’یہاں گندم کھلانے والی عورت ماں تھی’’
وہ بے خواب سا
جانے کہاں سے چلاتھا۔۔
ہم زمین پہ مل گٴے
خدانے اس کانام آدم رکھامیں نے بیٹا
ہم دونوں تنہا تھے
وہ معصوم تھا اور میں خوش
میں ساری اداسی پاٹ ڈالی
اور کیاری میں ہاتھ بودیے
پرانی سارانٴی ہوگٴی تھی
میرے ہاتھوں سے ہاتھ جاتے رہے
مجھے کیاخبر تھی
مٹی ہوٴی چیزوں سے بھی
کچھ چھین لیاجاتاہے
چاند داغ سہتاآیاہے
مجھے مٹی کا الزام سہناتھا
اب منے کی ہنسی میں
جزبے بس چکے تھے إ
پتھر لہومیں پڑرہے تھے
اور میں چھلک رہی تھی
تنہاٴی ساخوف ہمیشہ میراپیھچا کرتا
انجانے سمندر میں
میں نےکشتیاں چھوڑدیں إ
موج مٹی میں کہیں کھو گٴی تھی
جب اندھیرے میں چراغ اٹک گیا
اندھیرے میں میری سانس اٹکی ہوٴی تھی
میں نے امید کے چراغ سے رسی جلاٴی
اور اپنے ٹکڑے کی چھاٴوں بن بیٹھی
ستارے ٹوٹ رہے تھے
اور میرے بچے کی عمر گھٹ رہی تھی
خوف نے میرے بال کھول دیءے
تومیں نے اپنی مانگ کانام بیٹا رکھا
دوسال ہاتھوں میں بیت گٴے
: چھوتھے سال میرابیٹاراستے کی طرف اشارہ کرسکتاتھا
سسکتی شام میں ، میں سوءیٹر بن رہی تھی
: کہ پانچ گھرگرگٴے
بان جیسے زندہ ہوگیا ہو اور میں مردہ
شام نے قہقہہ لگایا
اور چاند کو اشارہ کرگٴی
بیٹے کو دیکھ کر دوپٹہ سے ڈھانپ دیتی
اس کی نیند میں ساراگھرگھوم آتی
: دیوار گرگٴی توبے پردگی ہوگٴی
لیکن یہاں تو ماں رہتی ہے
ماں کاجسم اور خوبصورت ہوجاتاہے
میرابیٹاسورہاتھا
اور میری گڑیاجاگ گٴی تھی
شام نے پھر چٹکی بجاٴی
اور میرا بیٹا کچھ خرید لایا
ربڑکا سانپ
میں سچے لمحے میں چلاٴی ،زہر
یہ زہر تو مصنوعی ہے ماں
اور میری کوکھ مین ربڑکاسانپ رہ گیا
میرے بچے کی شرارت پانچ سال کی ہوگٴی
سورج کی سلاخوں پہ
کپڑے سکھا بیھٹی
انجانے خوف نے آگ پکڑی إ
بچے نے لفظ گوش گزارے
الف سے اللہ،میم سے ماں إ
مین نے لفظ کو ٹھنڈا کیا
: بیٹے میم سے محمد
میم کامطلب تو منور ہوتاہے ماں
پھر آپ کیوں رہی ہیں ؟
بہت سی منور چیزیں رورہی ہیں بیٹا
کھلونے کھیلوں إإ
کھلونے کا لفظ نہ دہرانا بیٹا
: نہیں تو ربڑ کاسانپ زندہ ہوجاٴے گا
ماں تم میرے کھیل سے کھوکیوں جاتی ہو ؟
خوف زدہ کیوں رہتی ہو
جتنے پورنے ڈالاکروں
اتنی ہی تختی لکھاکروبیٹا إ
گیند کبھی دیواروں کو چھو تی کبھی کھوجاتی
کبھی مٹی کی کوکھ بن جاتی
گیند سے کہیں ماں گھرٹوٹے إ
میں کس کے پاس سوٴوں گا
اندیشوں میں جاگ مت لگابیٹے إ
مٹی کی طرح چھاٴوں کے کپڑے نہ پہن
کہیں دکھ زرخیز نہ ہوجاٴیں إ
خاک کوآگ کی بددعا ہے
میرے ہوتے ہوٴے ماں دعا مانگ رہی ہو إ
سورج میرے تلوے چاٹرہاہے إ
کہیں تمہیں نظر نہ لگ جاٴے
پھولوں کے پاس مت جایاکرو
کیامیری ماں کاٴنات کی قید میں ؟
فکر انسانی موڑپہ ہے
اور علم میری قید کاٹ رہاہے
: کڑیاں پہلو میں سورہی ہیں
سمندر کی سطح کھلتی ہی نہیں
گناہ کی پشت دیکھ رہی ہوں إ
چراغ محو ہے انسانوں میں
میں اپنے کھلونوں سے ہی ڈر گٴی تھی
جلی رسیوں پہ نقش پا ٹھہر گیا
: اور فاصلے پہ آنکھ مر گٴی
:‘’ماں کے لفظ پہ زمین ختم ہوجاتی ہے’’
تو میں کہاں کھیلوں گا ؟
: اور ستارے آسمان کو لوری سناتے رہے
بچے کے ہاتھ میں سوٴی چھبی
: اور اس نے درد کو خاموشی پر رکھا
إإ‘’سوٴی سے آواز آٴی ،ماں’’
: میں سمجھی خدا یہی ہے
ستارے گننے سکھاٴے تھے
: کیاخبر تھی کل اسے دیواریں گننا سکھادے گی
“ جب منور چراغوں سے میرے دوپٹے میں آگ لگی”
میرا بچہ آگ سے ڈر گیا
میں خود سے چپھی چپھی اسے شیر چکھاتی
لیکن وہ آگ سے ایسا ڈرا
: کہ میری توماں بیت گٴی
“ میری آہ پہ لوگ قرآن پڑھتے”
مجھے دیکھ کرماٴوں کے سینے سے دودھ بہنے لگتا
اور جب میں میں بچے کو ڈونڈتی
: میرے پستانوں میں دودھ رہ جاتا
ہاتھوں کے کتبے قبرڈھونڈنے لگتے
“خاموش قبریں بھی چلااُٹھتیں”
بچے اور ماں کے درمیان
کوٴی انسانی کڑی رہ جاٴے
: تو بیٹا کنکر سے مکالمہ مت کرنا
میری کتابیں پڑھنا
آگ سے ڈرے ہو
میرے لفظ کی روح سے مت ڈرنا
: کہ روح کادوپٹہ منور چراغوں سے نہیں جلتا
جانے آج تم نے کونسا رنگ پہنا ہوگا”
جانے آج دکھ تمہارے گھر کتنی دیر ٹھہر اہوگا
تمہاری شرارتوں سے کیاریاں بھر گٴی ہوں گی
تمہاری آواز میری آنکھوں جیسی ہوگٴی ہوگی
تمہاری ہنسی مجھ سے مکالمہ کرتی ہوگی
” محلے کے بچے تم سے ماٴون کی شکایت کرتے ہوں گے
کاش میں تمہاری پور سے کانٹانکالتی
اور کسی بھی تہوار پہ یہ خالی ہاتھ تمہیں دے دیتی
: تیری شرارتوں سے میں جوان ہوجاتی
میں نے قدم تہہ کٴے
اور تیری دیوار کے ساتھ کھڑی ہوگٴی
دیوار سانس لینے لگی إ
میں جھری سے تمہیں دیکھتی
آنگن کھیل رہاہوتا لیکن دروازہ بند تھا
جیسے آواز مجھ مر گٴی ہو
اور آنکھوں
نے تجھے گود لے رکھاہو
میری آنکھوں سے تیر سے کنچے کھوگٴے
میرا دوپٹہ کراہتا
اور چراغ ہوا کے ساتھ رقص کرگٴے
پھر آہوں کی بیلوں سے
میں نے دیوار ڈھکی
چراغ مین پھنکارتی آگ
میرے کفن کوگالی بناگٴی
سیاہ آنکھوں والی ماٴیں
رات کی قیدی تھیں
ان کے نیند میں جنے ہوءے بچے
انھیں اتنا جگاجاتے کہ یہ جاگتے میں مرجاٴیں
پھر میں دیپ لے کر کبھی جنگل نہ گٴی
میں کوڑے کے ڈھیر سے آنکھیں اٹھا اٹھا کر پڑھاکرتی
انجانے تارے ٹوٹ رہے تھے
آسمان نے مجھے کہا، ماں إ
اور میری آنکھ آسمان ہوگٴی
چاند نے آدھی بات کہی اور صبح ہوگٴی
مجھے انسانوں کی بھوک لگی
تومیرے کپڑوں نے فاقہ قبول کرلیا
ساٴے ٹل جاٴیں تو دھوپ کی پیداٴش کہاں
اور تم میرے ثواب سے روٹھ گٴے
میں پوری آنکھ سے جل اٹھی
پھول بیٹے إإ
تم جھوٹ بولتی ہو ماں إ
ماں کب آنکھ ناپتی ہے
کچے رنگوں کی پتنگ نہ اڑایا
کہیں موسم پرواز نہ سیکھ لیں
تم پھر پھول توڑلاٴے
اور اس کا نام ماں رکھا
لیکن اکثر پھول باپ کے گناہ سے کالے پڑے تھے
حیرت نے جنم لیا
تو میں نے خدا کوورق ورق پڑھ لیا إ
واقعی تیری کوٴی ماں نہین
: اور نہ تونے کسی کوجنا
میری بوڑھی دعا مجھے تراشتی
اور میں بچے سنگریزوں سے کھلونے بناتی
کھلونے باعمر ہوٴے اور مجھ سے باتیں کرتے
میں نے نٴی زبان دریافت کرلی
اور ماٴوں سے کہا إ
تم دیواروں کی ماں ہو
: اور میں صدیوں کی ماں ہوں
انکار تیرا ماں بانٹے
ضمیر تیری زبان ہو
چاند چٹکی بجاٴے توتورات سمجھ لے
فرصت سے ٹوٹنے لگو
: تومقدر پہ کوٴی نٴی بات لکھ دینا
میرا رب دکھ سے بھی اعلیٰ ہے
میں ایسا پیڑہوٴی
جس کا تابوت بنا، بن لاشہ
عورت ماں ہوجاٴے
: تو خدااس کا دوست ہوجاتاہے
: ہرسنگِ میل پہ لکھاہے ، کون جانے
قدم کے ساتھ فاصلہ رہتاہے
میں نے خاموشی گناہ کیا اور پیدا ہوگٴی
تم نے خاموشی گناہ کیااور ماں سے جد اہوٴے
: اور میں زنجیر جتنی بیدار ہوگٴی
میراہرلباس چراغ ہی سے جلتاہے
تم تو مجھے ایسے دیکھ رہے ہو
جیسے میں نے انسان کو جنم ہی نہیں دیا
دکھ تیرا ذاٴقہ ہو
تیرا بیج میرے بچے کے دکھ جیساہو
تیرا صبر میرے گناہ جیسا ہو
آگ تیری شرم ہو
جنگل تیری آس ہو
معافی تیرا حکم ہو
خوشی تیری فاقہ ہو
ماں تیری آنکھ ہو
بچہ تیرا صبر ہو
مفلسی تیری کماٴی ہو

(سارا شگفتہ)

No comments:

Post a Comment

8 psychological tricks in Urdu which will make your life easy || Top 8 psychology tricks

8 psychological tricks in Urdu which will make your life easy || Top 8 psychology tricks https://youtu.be/PnxGaJCLoQw ...