Monday, 27 July 2015

پر نکلتے گئے پرندوں کے
اور پھر ہو گیا شجر خالی
خالد محبوب

Thursday, 11 June 2015

دلیل تھی نہ کوئی حوالہ تھا ان کے پاس
عجیب لوگ تھے بس اختلاف رکھتے تھے!
Aaj shamshan ki si boo hay yahan
Kia koi jism jal raha hay kahin
Jaun Elia
کیا کہیں تم سے بود و باش اپنی
کام ہی کیا وہی تلاش اپنی
کوئی دم ایسی زندگی بھی کریں
اپنا سینہ ہو اور خراش اپنی
اپنے ہی تیشہ ندامت سے
ذات ہے اب تو پاش پاش اپنی
ہے لبوں پر نفس زنی کی دکاں
یاوہ گوئی ہے بس معاش اپنی
تیری صورت پہ ہوں نثار پہ اب
اور صورت کوئی تراش اپنی
جسم و جاں کوتو بیچ ہی ڈالا
اب مجھے بیچنی ہے لاش اپنی
-جون ایلیا-

Monday, 8 June 2015

شکست
اپنے سینے سے لگائے ہوئے اُمید کی لاش
مدتوں زیست کو ناشاد کیا ہے میں نے
تو نے تو ایک ہی صدمے سے کیا تھا دوچار
دل کو ہر طرح سے برباد کیا ہے میں نے
جب بھی راہوں میں‌ نظر آئے حریری ملبوس
سرد آہوں میں تجھے یاد کیا ہے میں نے
اور اب جب کہ مری روح کی پہنائی میں
ایک سنسان سی مغموم گھٹا چھائی ہے
تو دمکتے ہوئے عارض کی شعائیں لے کر
گل شدہ شمعیں جلانے کو چلی آئی ہے
میری محبوب __ یہ ہنگامہء تجدیدِ وفا
میری افسردہ جوانی کے لیے راس نہیں
میں نے جو پھول چنے تھے ترے قدموں کے لیے
اُن کا دھندلا سا تصور بھی میرے پاس نہیں
ایک یخ بستہ اُداسی ہے دل و جاں پہ محیط
اب مری روح میں باقی ہے ___ نہ امید ___ نہ جوش
رہ گیا دب کے گراں بار سلاسل کے تلے
میری درماندہ جوانی کی اُمنگوں کا خروش
ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں
سایہ ابرِ گریزاں سے مجھے کیا لینا
بُجھ چکے ہیں مرے سینے میں محبت کے کنول
اب ترے حسنِ پشیماں سے مجھے کیا لینا
تیرے عارض پہ یہ ڈھلکے ہوئے سیمیں آنسو
میری افسردگیء غم کا مداوا تو نہیں
تیری محبوب نگاہوں کا پیامِ تجدید
اِک تلافی ہی سہی ___ میری تمنا تو نہیں
(ساحر لدھیانوی)
ﯾﻮﮞ ﮐﺮﭼﯿﺎﮞ ﺳﻤﯿﭧ ﮐﺮ ﺍﺣﺴﺎﮞ ﻧﮧ ﮐﯿﺠﯿﮯ
ﺑﮑﮭﺮﯼ ﮨﮯ ﺍﺏ ﮐﮧ ﺫﺍﺕ ﻣﺮﯼ ﭼﻮﮌﯾﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ
حکیم مومن خان مومن نے پہلا عشق نو برس کی عمر میں اپنی ہم جولی پڑوسن کی ایک لڑکی سے کیا جو دو برس تک جاری رہا، اس لڑکی کی اچانک موت نے ایک عرصہ انہیں افسردہ کیے رکھا، اس عالم میں ان کی ایک عزیزہ اپنی بیٹی سیما کے ساتھ ان کی تیمار داری کے لیے آئی، سیما مہمان بن کر آئی اور ان کے دل کی مالک ہوگئی، تنہائی کے جو بھی مواقع میسر آئے مؤمن نے ہر ہر موقعے کو خوب کشید کیا، دوپہر میں جب سب سو جاتے ان دونوں کے بخت جاگ جاتے، وہ دونوں محوِ نشاط تھے کہ کسی کی نظر پڑ گئی، خبر عام ہو گئی، اتنی سی عمر اور یہ حرکات، سزا کے طور پر نزلہ 
سیما کے سر گرا، اور اسے واپس بھیج دیا گیا، 
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے،
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
کون کاٹے گا ڈور سانسوں کی
ختم ہو گا کہاں سفر ؟ صاحِب !
بندگی سے ہمیں تو مطلب ہے
ہم ثواب و عذاب کیا جانیں___!
کس میں کتنا ثواب ملتا ہے
عشق والے حساب کیا جانیں__!

Tuesday, 26 May 2015



میں اپنے آپ کو آزاد کرنے والا ہوں__!


ترے خیال کی اس قیدِ با مشقت سے
مرے ویران کمرے میں
کبھی آؤ دکھاؤں میں
دراڑیں سانپ بن کر
کیسے دیواروں سے لپٹی ہیں
کبھی آؤ دکھاؤں
چیونٹیاں لمبی قطاروں میں
مری ہمسائیآں ہو کر
مجھی سے لا تعلّق ہیں
کبھی آؤ دکھاؤں میں
ہوا ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے اَ کر
کس طرح مجھ کو چڑاتی ہے
سحر ہوتے ہی کیسے
روشنی آنکھوں میں چبھ کر
مجھ پہ طنزا مسکراتی ہے
کبھی آؤ دکھاؤں میں
, مرے چاروں طرف بکھرے ہوئے
سگریٹ کے ٹکڑے ہیں
کہ جیسے اک پرانی قبر پر
رکھے ہوئے سوکھے ہوئے پتّے
کبھی آؤ دکھاؤں میں
وہ الماری کہ جو چوپٹ کھلی ہے
اور میں اس میں ڈھونڈتا ہوں کچھ
تو اکثر بھول جاتا ہوں
کہ میں کیا ڈھونڈتا ہوں
اور یہ ٹیڑھا آئینہ
ٹوٹے ہوئے چہرے پہ کیسے چونک اٹھتا ہے
کبھی آؤ دکھاؤں میں
مرے ویران کمرے کے بہت گمنام کونے میں
تمہارے ہجر کے دن سے
یہ دل حیران کتنا ہے
تمھارے بعد یہ کمرہ مرا ویران کتنا ہے

Monday, 25 May 2015

مرے کمرے سے آئینے ہٹا دو___!!!
یہ عورت میرے پیچھے پڑ گئی ہے
لوگ خوش ہیں اسے دے دے کے عبادت کے فریب 
وہ مگر خوب سمجھتا ہے ____خدا ہے وہ بھی!!!

Sunday, 24 May 2015

ﺗﻮﺑﮭﯽ ﺳﺎﺩﮦ ﮬﮯﮐﺒﮭﯽ ﭼﺎﻝ ﺑﺪﻟﺘﺎﮬﯽ ﻧﮩﯿﮟ!
ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﺩﮦ ﮬﻮﮞ ﺍﺳﯽ ﭼﺎﻝ ﻣﯿﮞ آﺟﺎﺗﺎﮬﻮﮞ
معراج فیض آبادی
--
ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے
تیری یادوں کو بھی رُسوا نہیں ہونے دیتے
کچھ تو ہم خود بھی نہیں چاہتے شہرت اپنی
اور کچھ لوگ بھی ایسا نہیں ہونے دیتے
عظمتیں اپنے چراغوں کی بچانے کے لئے
ہم کسی گھر میں اُجالا نہیں ہونے دیتے
آج بھی گاؤں میں کچھ کچے مکانوں والے
گھر میں ہمسائے کے فاقہ نہیں ہونے دیتے
ذکر کرتے ہیں ترا نام نہیں لیتے ہیں
ہم سمندر کو جزیرہ نہیں ہونے دیتے
مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
سفر پہ بھیج کے اسباب مـــار ڈالــــــے گا
وہ آنکھیں بانٹے گا اور خواب مار ڈالے گا
بھنور ، سراب ، بگولے ، چراغ ، پھول ، ھوا
مجھـــے یہ حلقہِٗ احبـــاب مــار ڈالـــــــے گا
تم آ تو جاؤ گے لیکن تمھارے آنے تک
مجھــے میرا دلِ بیتاب مـــار ڈالــے گا
کسی امید نے لُٹنا ھے ساحلِ دل پر
کسی سفینے کو گرداب مار ڈالے گا
کسی بھی لو نے اگر سر اٹھایا بستی میں
چـــــــــراغِ منبر و محــراب مــــار ڈالـــــے گا
مجھ کو معلوم تھا رستے سے پلٹ جائیں گے
میں نے بے کار ہی یکجا کیے بھٹکے ہوئے لوگ
گئے دنوں کا سراغ لیکر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم، نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہ جان، میرے تو دل میں اتر گیا وہ
وہ میکدے کو جگانے والا، وہ رات کی نیند اڑانے والا
نہ جانے کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہیں گھر گیا وہ
کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی، بدل چلا رنگ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ڈھل گئی ہے، جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں، گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا، مثل گرد سفر گیا وہ
بس اک منزل ہے بوالہوس کی، ہزار رستے ہیں اہل دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں، گزر کیا میں ٹھہر گیا وہ
وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تونے منزلوں کا
تیری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارا، وہ ہمنفس ہمسخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا، سنا ہے کل رات مر گیا وہ
بس ایک موتی سی چھب دیکھا کر، بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارا شام بن کے آیا، برنگ خواب سحر گیا وہ
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا، نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں، جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر، وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا، پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
بج اٹھیں تالیاں کہانی پر
دونوں کردار مر گئے آخر ...!
اپنی مجروح اناؤں کو دلاسے دے کر__!
ہاتھ میں کاسہ خیرات لئے پھرتے ہیں

Saturday, 25 April 2015


بند باہر سے مری ذات کا در ہے مجھ میں
میں نہیں خود میں، یہ اک عام خبر ہے مجھ میں
اک عجب آمد و شُد ہے کہ نہ ماضی ہے نہ حال
جونؔ، برپا کئی نسلوں کا سفر ہے مجھ میں
ہے مری عمر، جو حیران تماشائی ہے
اور اک لمحہ ہے جو زیر و زبر ہے مجھ میں
کیا ترستا ہوں کہ باہر کے کسی کام آئے
وہ اک انبوہ کہ بس خاک بسر ہے مجھ میں
ڈوبنے والوں کے دریا ملے پایاب مجھے
اس میں اب ڈوب رہا ہوں جو بھنور ہے مجھ میں
در و دیوار تو باہر کے ہیں ڈھینے والے
چاہے رہتا نہیں میں، پر مرا گھر ہے مجھ میں
میں جو پیکار میں اندر کی ہوں بے تیغ و زِرہ
آخرش کون ہے جو سینہ سِپر ہے مجھ میں
معرکہ گرم ہے بے طَور سا کوئی ہر دَم
نہ کوئی تیغ سلامت، نہ سِپر ہے مجھ میں
زخم ہا زخم ہوں اور کوئی نہیں خوں کا نشاں
کون ہے وہ جو مرے خون میں تر ہے مجھ میں
جونؔ ایلیا

لا اِدھر ہاتھ
کہ ہم درد کی اس ڈوبتی ناؤ سے اُتر کر
چلیں اُس پار
جہاں کوچہ و بازار نہ ہوں
درد کے آثار نہ ہوں
در و دیوار اگر ہوں بھی
تو اُن میں
ترے آنسو، مرے آزار نہ ہوں___!!!

جہاں سات آٹھ عورتیں جمع ھوں تو سب بیک وقت بولتی ھیں اور اچنبھے کی بات یہ ھے کہ بولتے میں سب کچھ سُن بھی لیتی ھیں۔
”مُشتاق اَحمد یُوسفی“
                                                                                   


جانے کیا واقعہ ہوا، کیوں لوگ                                                                                       

اپنے اندر نہیں رہے آباد   

                                       
کیا خوب مزا تھا جینے میں، اک زخم چھپا تھا سینے میں
اس زخم کو کھرچا ناخن سے اور خون بہا کر رقص کیا !
وہ جب نہ ملا محرابوں میں جسے ڈھونڈ رہے تھے خوابوں میں
سجدے سے اٹھایا سر اپنا اور ہاتھ اٹھا کر رقص کیا !

Friday, 24 April 2015

تو ذوق_ تماشہ پیدا کر__!
ہم روز تماشہ کر لیں گے !!

Monday, 6 April 2015


شامِ غم کچھ اُس نگاہِ ناز کی باتیں کرو
بےخودی بڑھتی چلی ہے، راز کی باتیں کرو
یہ سکوتِ ناز، یہ دل کی رگوں کا ٹُوٹنا
خامشی میں کچھ شکستِ ساز کی باتیں کرو
نکہتِ زلفِ پریشاں، داستانِ شامِ غم
صبح ہونے تک اِسی انداز کی باتیں کرو
عشق رُسوا ہو چلا، بے کیف سا، بے زار سا
آج اُس کی نرگسِ غمّاز کی باتیں کرو
نام بھی لینا ہے جس کا اِک جہانِ رنگ و بُو
دوستو اُس نو بہارِ ناز کی باتیں کرو
ہر رگِ دل وجد میں آتی رہے، دُکھتی رہے
یونہی اُس کے جا و بے جا ناز کی باتیں کرو
جو عدم کی جان ہے، جو ہے پیامِ زندگی
اُس سکوتِ راز، اُس آواز کی باتیں کرو
کس لئے عذرِ تغافُل، کس لئے الزامِ عشق
آج چرخِ تفرقہ پرداز کی باتیں کرو
کُچھ قفس کی تیلیوں سے چھَن رہا ہے نُور سا
کُچھ فضا، کُچھ حسرتِ پرواز کی باتیں کرو
جو حیاتِ جاوداں ہے، جو ہے مرگِ ناگہاں
آج کچھ اُس ناز، اُس انداز کی باتیں کرو
جس کی فُرقت نے پلٹ دی عشق کی کایا فراق
آج اس عیسیٰ نفس دم ساز کی باتیں کرو
"یک طرفہ محبت میں دو بڑے فائدے ہیں - ایک تو یہ کہ اس میں ناکامی کا اندیشہ نہیں- دوسرا یہ کہ اس کا دورانیہ کسی دوسرے کی مرضی پر منحصر نہیں- آپ جتنی دیر اس میں مبتلا رہنا چاہیں، بلا کھٹکے رہ سکتے ہیں- دو طرفہ محبت میں عاشق مزاج لوگوں کو ایک خدشے بلکہ کھلے خطرے کا سامنا ہوتا ہے- ذرا بھی غفلت برتیں تو نکاح کی صورت پیدا ہو جاتی ہے......!!"
(مشتاق احمد یوسفی)

Saturday, 4 April 2015

”ایکسٹسی“
دو سوندھے سوندھے سے جسم جس وقت
ایک مُٹھی میں سو رھے تھے
لبوں کی مدھم طویل سرگوشیوں میں
سانسیں اُلجھ گئی تھیں.
مُندے ھُوئے ساحلوں پہ
جیسے کہیں بہت دُور
ٹھنڈا ساون برس رھا تھا
بس ایک ھی رُوح جاگتی تھی
بتا تو اس وقت مَیں کہاں تھا ؟
بتا تو اس وقت تُو کہاں تھی ؟
”گُلزار“

محبتوں میں اذّیت شناس کتنی تھیں
بچھڑتے وقت وہ آنکھیں اُداس کتنی تھیں
فلک سے جن میں اُترتے ھیں قافلے غم کے
مری طرح وہ شبیں اُس کو راس کتنی تھیں
غلاف جن کی لحد پر چڑھائے جاتے ھیں
وہ ھستیاں بھی کبھی بے لباس کتنی تھیں؟
بچھڑ کے تجھ سے کسی طور دِل بہل نہ سکا
نِشانیاں بھی تری میرے پاس کتنی تھیں
اُتر کے دل میں بھی آنکھیں اُداس لوگوں کی
اسیرِ وھم و رھینِ ھراس کتنی تھیں
وہ صُورتیں جو نکھرتی تھیں میرے اشکوں سے
بچھڑ کے پھر نہ ملیں ، ناسپاس کتنی تھیں
جو اُس کو دیکھتے رھنے میں کٹ گئیں محسن
وہ ساعتیں بھی محیطِ حواس کتنی تھیں ؟
”مُحسن نقوی“

مـــــیں ہــوں مشتاق جــفا مجھ پــے جـفا اور سـہی
تـــم ہو بـــیداد مــیں خوش اس سے سـوا اور سـہی
کـــیوں نـــہ فردوس مـیں دوزخ کـو ملا لیـں یـا رب
سیــر کے واسطـــے تھوڑی ســی فــضا اور سہــی
(مرزا اسداللہ خان غالب)

فیض کا کمال ھی یہی ھے کہ ان کی نظم کا آغاز چاھے کتنا دُکھی یا نا اُمیدی سے بھرا ھو , وھی نظم ایک اُمید دلاتے ھوئے اور ھمیشہ ایک Positive Note پر ختم ھوتی ھے۔
”اِس وقت تو یُوں لگتا هے“
اس وقت تو یوں لگتا هے
اب کچھ بھی نہیں هے
مہتاب نہ سورج
نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ
کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناهوں میں
کسی درد کا ڈیرا
ممکن هے کوئی وہم تھا
ممکن هے سنا هو
گلیوں میں کسی چاپ کا
اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے
گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا
نہ کوئی خواب بسیرا
اک بَیر، نہ اک مہر
نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا
نہ پرایا ، کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی
سخت کڑی هے
لیکن مرے دل !!
یہ تو فقط اک هی گھڑی هے
همت کرو جینے کو تو
اک عمر پڑی هے
”فیض احمد فیض“
میو هسپتال، لاہور
4، مارچ 82ء

"خواب"
چاندنی نے رنگِ شب جب زرد کر ڈالا۔۔۔۔تومیں
ایک ایسے شہر سے گزرا۔۔۔۔جہاں
صرف دیواریں نمایاں تھیں
چھتیں معدوم تھیں
اور گلیوں میں فقط سائے رواں تھے
جسم غائب تھے
(شاعر: احمد ندیم قاسمی)
محبت ہے ہمیں اک دوسرے سے
یہ آپس میں بتانا پڑ رہا ہے
(شاعرہ: شبنم شکیل)

Saturday, 7 February 2015

ہماری تحریریں آپ کو کڑوی اور کسیلی لگتی ہیں۔ مگر اب تک مٹھاسیں آپ کو پیش کی جاتی رپی ہیں۔ ان سے انسانیت کو کیا فائدہ ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیم کے پتے کڑوے سہی، مگر خون ضرور صاف کرتے ہیں۔
(اقتباس: سعادت حسن منٹو کی کتاب "لزت سنگ" کے افسانے "افسانہ نگار اور جنسی مسائل" سے)
دینا میں جتنی لعنتیں ہیں، بھوک ان کی ماں یے۔۔۔۔۔۔بھوک گداگری سکھاتی یے۔ بھوک جرائم کی ترغیب دیتی یے۔ بھوک عصمت فروشی پر مجبور کرتی یے۔ بھوک انتہا پسندی کا سبق دتیی یے۔۔۔۔۔۔۔اس کا حملہ بہت شدید، اس کا وار بہت بھرپور اور اس کا زخم بہت گہرا ہوتا یے۔۔۔۔۔۔بھوک دیوانے پیدا کرتی یے۔ دیوانگی بھوک پیدا نہیں کرتی۔
(اقتباس: سعادت حسن منٹو کی کتاب "لزت سنگ" کے افسانے "افسانہ نگار اور جنسی مسائل" سے)
زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔ اگر آپ اُس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ میں جو بُرائیاں ہیں وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ہنگامہ پسند نہیں۔ میں لوگوں کے خیالات و جزبات میں ہیجان پیدا کرنا نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تہزیب و تمدن کی اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اُسے کپٹرے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔ اس لئے کہ یہ کام میرا نہیں درزیوں کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں۔ لیکن میں تختئہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا سفید چاک استمال کرتا ہوں کہ تختئہ سیاہ کی سیاہی اور بھی زیادہ نمایاں ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میرا خاص انداز، میرا خاص طرز ہے جسے فحش نگاری، ترقی پسندی اور خدا معلوم کیا کیا کچھ کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ لعنت ہو سعادت حسن منٹو پر۔ کم بخت کو گالی بھی سلیقے سے نہیں دی جاتی۔
(اقتباس: سعادت حسن منٹو کی کتاب "منٹو کے افسانے" کے "پیش لفظ" کے صفحہ "13" سے)
انسان ایک دوسرے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں جو غلطی ایک مرد کرتا ہے، دوسرا بھی کرسکتا ہے۔ جب ایک عورت بازار میں دکان لگا کر اپنا جسم بیچ سکتی ہے تو دنیا کی سب عورتیں کر سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن غلط کار انسان نہیں، وہ حالات ہیں جن کی کھیتیوں میں انسان غلطیاں پیدا کرتا ہے اور ان کی فصلیں کاٹتا ہے۔
(اقتباس: سعادت حسن منٹو کی کتاب "لزت سنگ " کے افسانہ "افسانہ نگار اور جنسی مسائل" سے)
کالم: منٹو اور خدا
منٹو میاں، ہم تو ٹھہرے جج، ہمارا تو کام ہی تم جیسے ادبی تخریب کاروں کی گوشمالی کرنا ہے۔
تم کٹہرے میں، ہم کرسی پر، تو ظاہر ہے ہماری تمہاری دشمنی تو سمجھ میں آتی ہے۔ کوئی ملزم منصف کا دوست کیسے ہوسکتا ہے۔ لیکن تم نے تو اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی ناراض کیا۔ فلم پروڈیوسرز بھی تم سے خفا، ادبی نقاد تمہارے خلاف، رُجت پسند تمہارے دشمن، ترقی پسند تم سے بیزار۔
اور تو اور تمہیں لاہور میں نوکری دینے والے مدیر مولانا چراغ حسن حسرت کے بارے میں تم نے اپنا مشہور مضمون ان کی موجودگی میں پڑھا تو انہوں نے فرمایا یہ منٹو کیا بکواس کر رہا ہے۔ اسے چپ کراؤ۔
کیا زندگی میں اتنے دشمن کافی نہیں تھے کہ اپنے خالق سے بھی مقابلہ کرنے بیٹھ گئے وہ کیا کہہ گئے تھے کہ میرے کتبے پر لکھا جائے کہ یہاں منٹو دفن ہے اور ابھی تک سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا۔
وہ تو بھلا ہو تمہارے لواحقین کا جنہوں نے تمہاری بات نہ مانی ورنہ تمہاری قبر کا کتبہ بھی کسی جج کے کٹہرے میں پایا جاتا۔ انہوں نے اچھا کیا کہ غالب کے مصرعے کا حوالہ دیا کہ یہ سعادت حسن منٹو کی قبر ہے جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں تھا۔
غالب کے بہت سارے فوائد ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ باقی لوگوں کی طرح ججوں کو بھی سمجھ نہیں آتا کہ کیا کہہ رہا ہے۔
منٹو میاں سچی بات یہ ہے کہ تمہاری تحریروں سے ہمارے نئے ملک کو ہی نہیں بلکہ ہمارا قدیم مذہب بھی خطرے میں پڑجاتا تھا۔ تمہارے جانے کے بعد تو ہمارا ایمان ہر وقت خطرے میں رہتا ہے۔ کیا کریں معاملات ہی اتنے نازک ہیں۔
تم تو لکھتے تھے، تمہاری کہانیاں لوگ پڑھتے تھے اس لیے ان کا ایمان خطرے میں پڑتا تھا۔ اب تو ہمارے پاس ایسے ایسے کیس آتے ہیں کہ تمہاری کہانیاں بچوں کی الف لیلیٰ لگتی ہیں۔
بلقیس نامی ایک گنوار عورت ہے نہ پڑھ سکتی ہے نہ لکھ سکتی ہے کھیتوں میں دوسری عورتوں سے جھگڑا ہوا پتہ نہیں کیا کہ بیٹھی، سالوں سے کال کوٹھڑی میں بند ہے۔ اب ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ اس نے کیا کیا تھا۔ معلوم کریں گے تو ہم بھی اس جرم کے مرتکب ہوں گے جو اس نے کیا تھا۔ اب اس نے کس شانِ کریمی میں کیا گستاخی کی تھی کچھ پتہ نہیں۔ اب دوسروں کے گناہوں کو ثابت کرتے کرتے خود تو گناہ گار نہیں بن سکتے۔ اس لیے بلقیس کے لیے بھی اور ملک خداداد کے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ وہ کال کوٹھڑی میں ہی بند رہے۔
اب بتاؤ کون ہو گا منٹو جو یہ کہانی لکھ پائے گا۔ شکر کرو جوانی میں اس ذلت کی زندگی سے جان چھوٹی۔ امید ہے اب حوضِ کوثر کے کنارے جی بھر کے پی رہے ہو گے اور اپنے خالق کے ساتھ وہی پرانی بحث چھیڑ کر بیٹھے ہوگے کہ بڑا افسانہ نگار کون ہے۔
(اقتباس: محمد حنیف کے کالم "منٹو اور خدا" سے)
آج میں بہت خوش ہوں‘ میری جیب میں پورے چھ سو روپے موجود ہیں جو میں نے مختلف دوستوں سے شرط لگا کے جیتے ہیں‘ مجھے لگا کہ میں تھوڑی سی کوشش اور کروں تو دو ہزار کی ’’دیہاڑی‘‘ آسانی سے لگا سکتا ہوں‘ یہ سوچتے ہی میں نے اپنے اُردو کے لیکچرار دوست فیصل کو فون کرکے آفس بلا لیا اور پرجوش آواز میں کہا ’’اُردو لکھنا پڑھنا جانتے ہو؟‘‘وہ غصے سے مجھے گھورنے لگا‘ میں نے طنزیہ لہجے میں سوال دوبارہ دہرایا‘ وہ غرایا ’’کیا یہی مذاق کرنے کے لیے بلایا ہے؟‘‘ میں نے قہقہہ لگایا ’’نہیں جانی! بس آج تمہاری اردو کا امتحان لینا ہے‘ بولو کتنے کی شرط لگاتے ہو؟‘‘ فیصل نے دانت پیسے ’’شرط لگانا حرام ہے‘‘۔ اب کی بار میں نے اسے گھورا ’’اگر میں ثابت کردوں کہ شرط حرام نہیں تو ؟؟؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔اس کی آنکھیں پھیل گئیں’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ کرو ثابت‘‘۔ میں نے اطمینان سے کہا ’’کیا نماز کے لیے وضو شرط نہیں‘ کیا شادی کے لیے نکاح شرط نہیں؟؟؟‘‘ میری دلیل سنتے ہی اُس نے پہلے اپنے بال نوچے‘ پھر میز پر پڑا پیپر ویٹ اٹھا کر میرے سر پر دے مارا لیکن میں چوکنا تھا لہذا اس کا نشانہ خطا گیا۔ مجھے ڈیڑھ گھنٹہ اسے سمجھانے میں لگ گیا کہ شرط لگانے سے کچھ نہیں ہوتا ’’چلو اگر تمہیں شرط منظور نہیں تو شرط کا نام انعام رکھ لیتے ہیں‘‘ کچھ بحث و تمہید کے بعد یہ تجویز فیصل کو پسند آگئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ میری جیب میں مزید رقم آنے والی ہے۔ طے پایا کہ اگر فیصل نے اُردو بوجھ لی تو میں اُسے ہزار روپے دوں گا اور اگر وہ ناکام رہا تو اُسے ہزار روپے دینا ہوں گے۔ فیصل کو یقین تھا کہ وہ یہ مقابلہ ہار ہی نہیں سکتا کیونکہ اُردو سے اس کا بڑا پرانا تعلق ہے اور وہ اِس زبان کا ماہر ہے۔ میں نے سرہلایا اور پوچھا ’’کھاتہ ترتیبات‘‘ کسے کہتے ہیں؟ فیصل کا رنگ اُڑ گیا ’’کیا کہا؟ پھر سے کہنا‘‘۔ میں نے اطمینان سے دوبارہ کہا ’’کھاتہ ترتیبات‘‘۔ فیصل سرکھجانے لگا ‘میں مزے سے سیٹی بجارہا تھا‘ اس کی طرف سے جواب میں تاخیر ہوئی تو میں نے اطمینان سے کہا ’’بیٹا اس کا مطلب ہے Account Settings ۔۔۔۔۔۔۔چلواب یہ بتاؤ ’’رازداری رسائی‘‘ کسے کہتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔وہ مزید ہڑبڑا گیا۔۔۔۔۔ ’’یہ کون سی زبان بول رہے ہو؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔میں مسکرایا ’’بیٹا یہ اُردو ہے‘ خالص اُردو‘ اس کا مطلب بھی سن لو‘ اس کا ترجمہ ہے Privacy Settings‘ اب بتاؤ کہ ’’ربط کا اشتراق‘‘ کیا ہوتا ہے؟‘‘ اُس کے پسینے چھوٹ گئے‘ ہکلاکر بولا ’’نہیں پتا‘‘۔ میں نے میز بجایا ’’میرے پیارے اس کا مطلب ہوتا ہے Share link۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ فیصل بے بسی سے اپنی ہتھیلیاں مسلنے لگا۔ میں نے سگریٹ سلگا کر ایک کش لگایا اور آگے کو جھکتے ہوئے پوچھا ’’فیس بک استعمال کرنا جانتے ہو؟‘‘ وہ اچھل پڑا ’’کیا مطلب؟ تم جانتے تو ہو کہ میں چار سال سے فیس بک استعمال کر رہا ہوں‘‘۔ میں نے دھواں اس کے منہ پر پھینکا ’’اچھاتو پھر یہ بتاؤ آخری دفعہ تم نے ’’تجدید کیفیت‘‘ کب کیا تھا؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔فیصل کی آنکھیں پھیل گئیں اور دھاڑ کر بولا ’’میں کوئی تمہاری طرح بے غیرت نہیں‘ میں نے یہ کام کبھی نہیں کیا‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’کون سا کام؟‘‘ وہ گرجا ’’یہی جو تم پوچھ رہے ہو‘‘۔ میں نے قہقہہ لگایا ’’ابے یہ Status Update کی اُردو ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔اچھا یہ بتاؤ تمہارے کتنے ’’پیروکار‘‘ ہیں؟‘‘ یہ سنتے ہی اُس نے مجھے گردن سے دبوچ لیا ’’کیا بکواس کر رہے ہو ‘ میں کوئی پیر بابا ہوں‘ میرے کہاں سے پیروکار آگئے؟؟؟‘‘ میری چیخ نکل گئی‘ میں نے بمشکل اپنی گردن چھڑائی اور دو قدم دور ہٹ کر چلایا ’’کمینے! پیروکار سے مراد ’’Followers ‘‘ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ایک موقع اور دیتا ہوں‘ بتاؤ جب تم فیس بک پر کوئی تصویر لگاتے ہو تو اسے کسی سے ’’منسلک‘‘ کرتے ہو؟۔۔۔۔۔۔ کبھی تمہیں ’’معاونت تختہ‘‘ کی ضرورت پیش آئی؟۔۔۔۔۔۔ تم ’’مجوزہ صفحات‘‘ کھولتے ہو؟۔۔۔۔۔۔۔تم نے کبھی اپنی ’’معلومات کی تجدید‘‘ کی؟۔۔۔۔۔۔کبھی ’’اپنے ’’واقعات زندگی‘‘ کو ’’عوامی‘‘ کرکے ’’پھیلایا؟؟؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔فیصل کے چہرے کے تاثرات عجیب سے ہوگئے تھے‘ یوں لگ رہا تھا جیسے کچھ ہی دیر میں وہ خالق حقیقی سے جاملے گا۔۔۔۔۔۔۔ اس نے میرے سوالوں کے جواب دینے کی بجائے اپنے ناخن چبانے شروع کر دیے۔ میں نے پراعتماد لہجے میں کہا’’۔۔۔۔۔۔تم ہار گئے ہو۔۔۔نکالو ایک ہزار‘‘۔ اُس نے نفی میں سرہلادیا ’’نہیں۔۔۔پہلے ثابت کرو کہ یہ اُردو کہیں استعمال بھی ہوتی ہے‘‘۔ مجھے پتا تھا کہ وہ یہ سوال ضرور کرے گا لہذا اطمینان سے اپنا فیس بک اکاؤنٹ کھول کر فیصل کے سامنے کر دیا جہاں Tag کی اردو ’’منسلک‘‘ لکھی تھی۔ Support Dashboard کو ’’معاونت تختہ‘‘ لکھا ہوا تھا‘ Recommended Pages کا ترجمہ ’’مجوزہ صفحات‘‘ کیا گیا تھا‘ Life events سے مراد ’’واقعاتِ زندگی‘‘ تھے اور Everyone کی اُردو ’’عوامی‘‘ کی شکل میں دستیاب تھی۔ وہ کچھ دیر ہونقوں کی طرح میری ’’اُردو مارکہ فیس بک‘‘ دیکھتا رہا‘ پھر خاموشی سے پرس نکالا‘ پانچ پانچ سو کے دو نوٹ نکال کر میری ٹیبل پر رکھے‘ اپنے آپ کو ایک عجیب و غریب سائنسی قسم کی گالی دی اور تیزی سے باہر نکل گیا۔
مجھے اردو سے بہت محبت ہے‘ اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ میں نے پنجابی بھی بولنی ہو تو اُردو میں بولتا ہوں‘ یہی وجہ ہے کہ جب کسی ’’ جانی دشمن‘‘ نے مجھے بتایا کہ فیس بک اب اُردو میں بھی دستیاب ہے تو میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ میں نے اسی وقت اُس سے طریقہ پوچھا اور فیس بک کو ’’مشرف بہ اردو‘‘ کر لیا۔میرا خیال تھا کہ اُردو قبول کروانے کے بعد فیس بک سے میری شناسائی میں مزید اضافہ ہوجائے گا لیکن جو کچھ سامنے آیا اسے دیکھ کرنہ صرف ہوش اڑ گئے بلکہ دو سال پہلے کا ایک وقوعہ بھی یاد آگیا جب میں نے غلطی سے موبائل کی اُردو آپشن آن کرلی تھی ‘ جو اردو سامنے آئی وہ لگ بھگ فرانسیسی زبان جیسی تھی‘ مجبوراً اپنے جاننے والے ایک ’’محرر‘‘ کو بلوا کر ترجمہ کروایا اور واپس انگلش کی طرف لوٹ گیا۔ فیس بک کی اُردو دیکھ کر بھی یہی حال ہوا‘ لیکن اندر ہی اندر فخر بھی محسوس ہورہا تھا کہ ماشاء اللہ میں اس مقام تک پہنچ گیا ہوں کہ اب مجھے اردو مشکل اور انگلش آسان لگنے لگی ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ اب تک اردو ہماری قومی زبان تو نہ بن سکی لیکن فیس بک کی زبان ضرور بن گئی ہے تاہم فیس بک والے ’’واجب القتل‘‘ قرار دے دینے چاہئیں جنہوں نے ابھی تک بے شمار الفاظ کا اردو ترجمہ نہیں کیا‘ مثلا ٹائم لائن‘ ای میل‘ پاس ورڈ‘ سرچ انجن‘ پروفائل‘ فیس بک‘ کوکیز‘ ایپلی کیشنز‘ موبائل‘ لاگ اِن اور لاگ آؤٹ جیسے بدیسی الفاظ تاحال یہاں موجود ہیں حالانکہ ان کا ترجمہ انتہائی آسان ہے ‘ میری رائے میں ‘ Facebook کو ’’متشکل کتاب‘‘ ۔۔۔Timeline کو ’’وقت کی لکیر‘‘۔۔۔Email کو ’’برقی چٹھی‘‘۔۔۔Password کو’’لفظی گذرگاہ‘‘۔۔۔Cookies کو’’چھان بورا‘‘ ۔۔۔Application کو ’’عرضی‘‘۔۔۔ Mobile کو’’گشتی‘‘ ۔۔۔Search Engine کو ’’مشینی تلاشی‘‘ ۔۔۔Video کو ’’متحرک تصاویر‘‘۔۔۔ Profile کو ’’شخصی ڈھانچہ‘‘۔۔۔ Log out کو ’’خروج‘‘ اور Login کو ’’دخول‘‘ کردینا چاہیے۔ اردو کی ترویج و ترقی کے لیے انگریزی کو بے لباس کرنا بہت ضروری ہے ‘ یقیناً ایسا کرنے سے ہی ہمارے ہاں یکدم ترقی کے دروازے کھل جائیں گے۔ ہم خود کوئی علمی دریافت کریں نہ کریں‘ دوسروں کے علم کی نقل مارنا بلکہ ’’مت مارنا‘‘ ضرور سیکھ جائیں گے۔
(اقتباس: گل نوخیز اختر کا کالم "اُردو آگئی میدان میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے جمالو" )
"خواب"
چاندنی نے رنگِ شب جب زرد کر ڈالا۔۔۔۔تومیں
ایک ایسے شہر سے گزرا۔۔۔۔جہاں
صرف دیواریں نمایاں تھیں
چھتیں معدوم تھیں
اور گلیوں میں فقط سائے رواں تھے
جسم غائب تھے

(شاعر: احمد ندیم قاسمی)

Saturday, 31 January 2015

خر اب کس کی بات مانوں میں
جو مِلا ، اس نے لاجواب کیا
یوں سمجھ تجھ کہ مضطرب پا کر
میں نے اظہارِ اضطراب کیا
(شاعر: جون ایلیا)
یہ بات کتنی اُداس اور مایوس کر دینے والی بات ہے کہ انسانی دانش اپنی تمام تر معجزنمائی کے باوجود سب سے زیادہ مہیب اور مہلک بیماری یعنی نفرت کا علاج کرنے میں آج تک برُی طرح ناکام رہی ہے۔
(اقتباس: جون ایلیا کے انشائیے "مرض" (نومبر 2007ء، ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ) سے)
اس دور کا سب سے نمایاں رجحان یہ ہے کہ جو تم ہو وہ نظر نہ آؤ. یہ معاشرے کا دباؤ ہے جو ہمیں اس بے معنی اداکاری پر مجبور کرتا ہے۔ ہم باہر سے بہت ثابت و سالم ہشاش بشاس نظر آتے ہیں لیکن اندر سے ریزہ ریزہ اور اذیت زدہ ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ ہم نے معاشرے کے اس ظالمانہ دباؤ کو کیوں قبول کر رکھا ہے۔
(اقتباس: جون ایلیا کے انشائیے "نظر آنا" (مارچ 1992ء، ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ) سے)

8 psychological tricks in Urdu which will make your life easy || Top 8 psychology tricks

8 psychological tricks in Urdu which will make your life easy || Top 8 psychology tricks https://youtu.be/PnxGaJCLoQw ...