Wednesday, 17 December 2014



جون ایلیا 14 دسمبر، 1937ء کو امروہہ، اتر پردیش کے ایک نامور خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے والد، علامہ شفیق حسن ایلیا کو فن اور ادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل بھی انہی خطوط پر کی۔ انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 سال کی عمر میں لکھا۔ اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں قلم طراز ہیں:

"میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے، پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا:

چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی"

جون اپنے لڑکپن میں بہت حساس تھے۔ ان دنوں ان کی کل توجہ کا مرکز ایک خیالی محبوب کردار صوفیہ تھی، اور ان کے غصے کا نشانہ متحدہ ہندوستان کے انگریز قابض تھے۔ وہ ابتدائی مسلم دور کی ڈرامائی صورت میں دکھاتے تھے جس وجہ سے ان کے اسلامی تاريخ کے علم کے بہت سے مداح تھے۔ جون کے مطابق ان کی ابتدائی شاعری سٹیج ڈرامے کی مکالماتی فطرت کا تاثر تھی۔

ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے۔ یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے۔چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اسلئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔۔ سعید کہتے ہیں، "جون کو زبانوں سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت حاصل کر لی تھی۔"

اپنی جوانی میں جون کمیونسٹ خیالات رکھنے کی وجہ سے ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے لیکن بعد میں اسے ایک سمجھوتہ کے طور پر قبول کر لیا۔ ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور پذیرائی نصیب ہوئی۔

جون ایلیا کی کتاب شاید کا ان کی تصویر والا سرورق
جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ شاید اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی۔ نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔

جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو مذہبی انتہا پسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔

فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں کر سکيں۔

جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ملاقات اردو کی ایک اور انتھک مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے بعد میں انہوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنا ایک اپنے انداز کی ترقی پسند دانشور ہیں اور اب بھی دو روزناموں، جنگ اور ایکسپریس، میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی حالت ابتر ہو گئی۔ وہ بژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کر دی۔

حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2000ءمیں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کی لوح مزار پر انھی کا یہ شعر تحریر ہے

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور _________ ملال بھی نہیں

وہ جو شاعر تھا

وہ جو شاعر تھا، چُپ سا رہتا تھا
بہکی بہکی سی باتیں کرتا تھا
آنکھیں کانوں پہ رکھ کے سُنتا تھا
... ... گونگی خاموشیوں کی آوازیں!
جمع کرتا تھا چاند کے سائے
اور گیلی سی نوُر کی بوُندیں
روُکھے روُکھے سے رات کے پتے
لوک میں بھر کے کھڑکھڑاتا تھا
وقت کے اس گھنیرے جنگل میں
کچے پکے سے لمحے چُنتا تھا
ھاں، وھی، وہ عجیب سا شاعر
رات کو اُٹھ کے کہنیوں کے بَل
چاند کی ٹھوڑی چوُما کرتا تھا
چاند سے گِر کے مر گیا ھے وہ
لوگ کہتے ھیں خودکشی کی ھے

"گُلزار"
Types of Literature

Autobiography:-

Autobiography is the story of a person's life written or told by that person.

Bill Peet: An Autobiography

Biography:-

Biography is the story of a person's life written or told by another person.

EX: Eleanor, by Barbara Cooney

Fable:-

Fable is a story that teaches a moral or a lesson. It often has animal characters.

EX:The Tortoise and the Hare

Fantasy novels:-

Fantasy novels are often set in worlds much different from our own and usually include magic, sorcery and mythical creature.

EX: The Harry Potter series by J. K. Rowling

Folktale:-

Folktale is a story that has been passed down, usually orally, within a culture. It may be based on superstition and feature supernatural characters. Folktales include fairy tales, tall tales, trickster tales and other stories passed down over generations.

EX: Hansel and Gretel

Legend:-

Legend is a story that has been handed down over generations and is believed to be based on history, though it typically mixes fact and fiction. The hero of a legend is usually a human.

King Arthur and the Roundtable

Myth:-

Myth is a traditional story that a particular culture or group once accepted as sacred and true. It may center on a god or supernatural being and explain how something came to be, such as lightning or music or the world itself.

EX: The Greek story of the Titan Prometheus bringing fire to humankind

Science Fiction:-

Science Fiction stories examine how science and technology affect the world. The books often involve fantasy inventions that may be reality in the future.

EX: The Left Hand of Darkness,by Ursula Le Guin....

Essays:-

Essays are a short literary composition that reflects the author’s outlook or point. A short literary composition on a particular theme or subject, usually in prose and generally analytic, speculative, or interpretative.

Drama:-

Drama is the genre of literature that’s subject for compositions is dramatic art in the way it is represented. This genre is stories composed in verse or prose, usually for theatrical performance, where conflicts and emotion are expressed through dialogue and action.

Poetry:-

Poetry is verse and rhythmic writing with imagery that evokes an emotional response from the reader. The art of poetry is rhythmical in composition, written or spoken. This genre of literature is for exciting pleasure by beautiful, imaginative, or elevated thoughts.

Humor:-

Humor is the faculty of perceiving what is amusing or comical. Fiction full of fun, fancy, and excitement which meant to entertain. This genre of literature can actually be seen and contained within all genres.

Mystery:-

Mystery is a genre of fiction that deals with the solution of a crime or the unraveling of secrets. Anything that is kept secret or remains unexplained or unknown.

Realistic Fiction:-

Realistic Fiction is a story that can actually happen and is true to real life.

Short Story:-

Short Story is fiction of such briefness that is not able to support any subplots.

’’دستور‘‘

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیں‌کرتا
سنا ہے جب
کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں‌اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں‌
تو مینا اپنے گھر کو بھول کر
کوےکے انڈوں کو پروں‌سے تھام لیتی ہے
سناہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گر ے تو
سارا جنگل جاگ جاتا ہے
ندی میں باڑ آجائے
کوئی پُل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری ، سانپ ، چیتا اور بکری ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

خداوندِ جلیل و معتبر ، دانا و بینا منصف و اکبر
ہمارے شہر میں اب
جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر !!!

(زہرہ نگاہ)
Black day 16.12.2014

Monday, 24 November 2014

بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم

7 ستمبر 1976ء کو ریڈیو پاکستان لاہور کے "یاد باغ" میں فیض احمد فیض نے ایک پودا لگایا۔ وہ اب ہم میں نہیں لیکن یہ پودا اب ایک تن آور درخت بن چکا ہے جسے دوسری تصویر میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔
دور ہے ان گنت خداؤں کا
کیا بنے گا مری دعاؤں کا
تری خوشبو سنبھال رکھی ہے
راستہ روک کر ہواؤں کا

فضل حسین ثمیم

مر بھی جاؤں تو کہاں ،لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے ـــــ مرے ہونے کی گواہی دیں گے

آج خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کا جنم دن ہے

24 نومبر 1954 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام سید شاکر حسن تھا۔ ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے۔آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے انہوں بچپن میں پروین کو کئی شعراء کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انگریزی ادب اور زبانی دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔

سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں، اور 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ ، سی۔بی۔آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔1990 میں ٹرینٹی کالج جو کہ امریکہ سے تعلق رکھتا تھا تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پروین کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جس سے بعد میں طلاق لے لی۔

شاعری میں آپ کو احمد ندیم قاسمی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔ آپ کا بیشتر کلام اُن کے رسالے فنون میں شائع ہوتا رہا۔

انکی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے۔
خوشبو (1976ء)،
صد برگ (1980ء)،
خود کلامی (1990ء)،
انکار (1990ء)
ماہ تمام (1994ء)

پروین شاکر کی پوری شاعری ان کے اپنے جذبات و احساسات کا اظہا رہے جو درد کائنات بن جاتا ہے اسی لیے انہیں دور جدید کی شاعرات میں نمایاں مقام حاصل ہے ۔۔ حالانکہ وہ یہ بھی اعتراف کرتی ہیں کہ وہ اپنے ہم عصروں میں کشور ناہید، پروین فنا سید، فہمیدہ ریاض کو پسند کرتی ہیں ، لیکن ان کے یہاں احساس کی جو شدت ہے وہ ان کی ہم عصر دوسری شاعرات کے یہاں نظر نہیں آتی ۔ اُن کی شاعری میں قوس قزح کے ساتوں رنگ نظر آتے ہیں ۔ اُن کے پہلے مجموعے خوشبو میں ایک نوجوان دوشیزہ کے شوخ و شنگ جذبات کا اظہار ہے اور اس وقت پروین شاکر اسی منزل میں تھیں۔ زندگی کے سنگلاخ راستوں کا احساس تو بعد میں ہوا جس کا اظہار ان کی بعد کی شاعری میں جگہ جگہ ملتا ہے ۔ ماں کے جذبات شوہر سے ناچاقی اور علیحدگی، ورکنگ وومن کے مسائل ان سبھی کو انہوں نے بہت خوبصورتی سے قلمبند کیا ہے۔

26 دسمبر 1994ء کو ٹریفک کے ایک حادثے میں اسلام آباد میں ، بیالیس سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں۔ لواحقین میں ان کے بیٹے کا نام مراد علی ہے۔

Saturday, 8 November 2014

ﻣﯿﺮﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﺎﻻﺕِ ﺣﺎﺿﺮﮦ ﭘﺮ ﺗﺒﺼﺮﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻠﮉﭘﺮﯾﺸﺮ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﻟﯽ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﻮ ﺭﮐﮫ ﺳﮑﮯ، ﻭﮦ ﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﻟﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﮯ ۔ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺣﺎﻻﺕ کا ذمہ دار.

"مشتاق احمد یوسفی"

آج سے پانچ برس پہلے کہنے کو ایک شاعر میرے ساتھ فیملی پلاننگ میں سروس کرتا تھا ۔ میں بہت بانماز ہوتی تھی ۔ گھر سے آفس تک کا راستہ بڑی مشکل سے یاد کیا تھا ۔ لکھنے پڑھنے سے بالکل شوق نہیں تھا۔ اتنا ضرور پتہ تھا ۔ شاعر لوگ بڑے ہوتے ہیں ۔

ایک شام شاعر صاحب نے کہا مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ پھر ایک روز ریستوراں میں ملاقات ہوئی۔ اُس نے کہا شادی کرو گی؟ دوسری ملاقات میں شادی طے ہو گئی۔ اَب قاضی کے لئے پیسے نہیں تھے۔ میں نے کہا ۔ آدھی فیس تم قرض لے لو اور آدھی فیس میں قرض لیتی ہوں۔ چونکہ گھر والے شریک نہیں ہوں گے میری طرف کے گواہ بھی لیتے آنا۔

ایک دوست سے میں نے اُدھار کپڑے مانگے اور مقررہ جگہ پر پہنچی اور نکاح ہو گیا۔ قاضی صاحب نے فیس کے علاوہ میٹھائی کا ڈبہ بھی منگوالیا تو ہمارے پاس چھ روپے بچے۔

باقی جھنپڑی پہنچتے پہنچتے ، دو روپے، بچے ۔ میں لالٹین کی روشنی میں گھونگھٹ کاڑھے بیٹھی تھی۔ شاعر نے کہا ، دو روپے ہوں گے، باہر میرے دوست بغیر کرائے کے بیٹھے ہیں۔ میں نے دو روپے دے دئے۔ پھر کہا ! ہمارے ہاں بیوی نوکری نہیں کرتی۔ نوکری سے بھی ہاتھ دھوئے۔

گھر میں روز تعلیم یافتہ شاعر اور نقاد آتے اور ایلیٹ کی طرح بولتے۔ کم از کم میرے خمیر میں علم کی وحشت تو تھی ہی لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی بُھوک برداشت نہ ہوتی ۔

روز گھر میں فلسفے پکتے اور ہم منطق کھاتے۔

ایک روز جھونپڑی سے بھی نکال دیئے گئے، یہ بھی پرائی تھی۔ ایک آدھا مکان کرائے پر لے لیا۔ میں چٹائی پر لیٹی دیواریں گِنا کرتی ۔ اور اپنے جہل کا اکثر شکار رہتی۔

مجھے ساتواں مہینہ ہوا۔ درد شدید تھا اور بان کا درد بھی شدید تھا ۔ عِلم کے غرور میں وہ آنکھ جھپکے بغیر چلا گیا۔ جب اور درد شدید ہوا تو مالِک مکان میری چیخیں سُنتی ہوئی آئی اور مجھے ہسپتال چھوڑ آئی ۔ میرے ہاتھ میں درد اور پانچ کڑکڑاتے ہوئے نوٹ تھے۔

تھوڑی دیر کے بعد لڑکا پیدا ہوا۔ سردی شدید تھی اور ایک تولیہ بھی بچے کو لپیٹنے کے لئے نہیں تھا۔ ڈاکٹر نے میرے برابر اسٹریچر پر بچے کو لِٹا دیا پانچ منٹ کے لئے بچے نے آنکھیں کھولیں اور کفن کمانے چلا گیا۔

بس ! جب سے میرے جسم میں آنکھیں بھری ہوئی ہیں۔ Sister وارڈ میں مجھے لٹا گئی۔ میں نے Sister سے کہا میں گھر جانا چاہتی ہوں کیونکہ گھر میں کسی کو عِلم نہیں کہ میں کہاں ہوں ۔ اُس نے بے باکی سے مجھے دیکھا اور کہا ، تنہارے جسم میں ویسے بھی زہر پھیلنے کا کا ڈر ہے ۔ تم بستر پر رہو ۔ لیکن اب آرام تو کہیں بھی نہیں تھا۔

میرے پاس مُردہ بچہ اور پانچ رُوپے تھے۔

میں نے Sister سے کہا ، میرے لئے اب مشکل ہے ہسپتال میں رہنا۔ میرے پاس فیس کے پیسے نہیں ہیں میں لے کر آتی ہوں، بھاگوں گی نہیں۔

تمہارے پاس میرا مُردہ بچہ امانت ہے، اور سیڑھیوں سے اُتر گئی۔ مجھے 105 ڈگری بُخار تھا۔ بس پر سوار ہوئی ، گھر پہنچی۔ میرے پستانوں سے دُودھ بہہ رہا تھا ۔میں دودھ گلاس میں بھر کر رکھ دیا ۔ اتنے میں شاعر اور باقی منشی حضرات تشریف لائے ۔ میں نے شاعر سے کہا ، لڑکا پیدا ہوا تھا ، مَر گیا ہے۔

اُس نے سرسری سنا اور نقادوں کو بتایا۔ کمرے میں دو منٹ خاموشی رہی اور تیسرے منٹ گفتگو شروع ہوگئی !

فرائڈ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟
راں بو کیا کہتا ہے ؟
سعدی نے کیا کہا ہے ؟
اور وارث شاہ بہت بڑا آدمی تھا ۔

یہ باتیں تو روز ہی سُنتی تھی لیکن آج لفظ کُچھ زیادہ ہی سُنائی دے رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا ! جیسے یہ سارے بڑے لوگ تھوڑی دیر کے لئے میرے لہو میں رُکے ہوں، اور راں بو اور فرائڈ میرے رحم سے میرا بچہ نوچ رہے ہوں۔ اُس روز علم میرے گھر پہلی بار آیا تھا اور میرے لہُو میں قہقہے لگا رہا تھا ۔ میرے بچے کا جنم دیکھو !!!

چنانچہ ایک گھنٹے کی گفتگو رہی اور خاموشی آنکھ لٹکائے مجھے دیکھتی رہی۔ یہ لوگ عِلم کے نالے عبُور کرتے کمرے سے جُدا ہوگئے۔

میں سیڑھیوں سے ایک چیخ کی طرح اُتری۔ اب میرے ہاتھ میں تین رُوپے تھے ۔ میں ایک دوست کے ہاں پہنچی اور تین سو روپے قرض مانگے ۔ اُس نے دے دیئے ۔ پھر اُس نے دیکھتے ہوئے کہا ! کیا تمہاری طبیعت خراب ہے ؟

میں نے کہا ، بس مجھے ذرا ا بخار ہے ، میں زیادہ دیر رُک نہیں سکتی پیسے کسی قرض خواہ کو دینے ہیں ، وہ میرا انتظار کر رہا ہوگا۔ ہسپتال پہنچی ۔ بِل 295 روپے بنا۔ اب میرے پاس پھر مُردہ بچہ اور پانچ روپے تھے۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا۔ آپ لوگ چندہ اکٹھا کر کے بچے کو کفن دیں، اور اِس کی قبر کہیں بھی بنا دیں۔ میں جارہی ہوں۔ بچے کی اصل قبر تو میرے دل میں بَن چکی تھی۔

میں پھر دوہری چیخ کے ساتھ سیڑھیوں سے اُتری اور ننگے پیر سڑک پہ دوڑتی ہوئی بس میں سوار ہوئی۔

ڈاکٹر نے سمجھا شاید صدمے کی وجہ سے میں ذہنی توازن کھو بیٹھی ہوں۔ کنڈکٹر نے مجھ سے ٹکٹ نہیں مانگا اور لوگ بھی ایسے ہی دیکھ رہے تھے۔ میں بس سے اُتری، کنڈکٹر کے ہاتھ پر پانچ روپے رکھتے ہوئے ، چل نکلی۔ گھر ؟ گھر!! گھر پہنچی۔

گلاس میں دودھ رکھا ہوا تھا۔ کفن سے بھی زیادہ اُجلا۔

میں نے اپنے دودھ کی قسم کھائی ۔ شعر میں لکھوں گی، شاعری میں کروں گی، میں شاعرہ کہلاؤں گی۔اور دودھ باسی ہونے سے پہلے ہی میں نے ایک نظم لکھ لی تھی، لیکن تیسری بات جھوٹ ہے، میں شاعرہ نہیں ہوں۔ مجھے کوئی شاعرہ نہ کہے۔ شاید میں کبھی اپنے بچے کو کفن دے سکوں۔

آج چاروں طرف سے شاعرہ! شاعرہ! کی آوازیں آتی ہیں، لیکن ابھی تک کفن کے پیسے پُورے نہیں ہوئے۔

(سارا شگفتہ بزبانِ خود ــــــــــــــــ پہلا حرف)

بیٹے کے لیے ایک نظم

میری مٹی تمہیں دیکھتی تھی
اور بیج کادردشدید تھا
تمہارا موزہ کھیتوں میں اُگ چکاتھا
میرے پاٴوں پر مٹی بھاری ہوٴی
سرگوشیوں میں پھول اُگے
دریاجنگل چرالاٴے
چھاٴوں میں نے بچھادی
اور تمہاری خوشبو پھولوں میں پڑگٴی تھی
مٹی میرے گھر مبارک باد دینے آٴٴی
پھول اور ستارے
کیاری کا دل دھڑکارہے تھے
شاخیں مٹی کوچومتیں
میں نے ایک پیڑتراشا
اور تیراجھولابنایا
کیا خبر تھی شاخوں کے لیے کوٴی پیڑ نہ رہے گا
پرندے مٹی پہ بسیرا کربیٹھے
‘’ مٹی نے گھونگٹ نکالاتو قبر نے مجھے ماں کہہ دیا إ’’
‘’یہاں گندم کھلانے والی عورت ماں تھی’’
وہ بے خواب سا
جانے کہاں سے چلاتھا۔۔
ہم زمین پہ مل گٴے
خدانے اس کانام آدم رکھامیں نے بیٹا
ہم دونوں تنہا تھے
وہ معصوم تھا اور میں خوش
میں ساری اداسی پاٹ ڈالی
اور کیاری میں ہاتھ بودیے
پرانی سارانٴی ہوگٴی تھی
میرے ہاتھوں سے ہاتھ جاتے رہے
مجھے کیاخبر تھی
مٹی ہوٴی چیزوں سے بھی
کچھ چھین لیاجاتاہے
چاند داغ سہتاآیاہے
مجھے مٹی کا الزام سہناتھا
اب منے کی ہنسی میں
جزبے بس چکے تھے إ
پتھر لہومیں پڑرہے تھے
اور میں چھلک رہی تھی
تنہاٴی ساخوف ہمیشہ میراپیھچا کرتا
انجانے سمندر میں
میں نےکشتیاں چھوڑدیں إ
موج مٹی میں کہیں کھو گٴی تھی
جب اندھیرے میں چراغ اٹک گیا
اندھیرے میں میری سانس اٹکی ہوٴی تھی
میں نے امید کے چراغ سے رسی جلاٴی
اور اپنے ٹکڑے کی چھاٴوں بن بیٹھی
ستارے ٹوٹ رہے تھے
اور میرے بچے کی عمر گھٹ رہی تھی
خوف نے میرے بال کھول دیءے
تومیں نے اپنی مانگ کانام بیٹا رکھا
دوسال ہاتھوں میں بیت گٴے
: چھوتھے سال میرابیٹاراستے کی طرف اشارہ کرسکتاتھا
سسکتی شام میں ، میں سوءیٹر بن رہی تھی
: کہ پانچ گھرگرگٴے
بان جیسے زندہ ہوگیا ہو اور میں مردہ
شام نے قہقہہ لگایا
اور چاند کو اشارہ کرگٴی
بیٹے کو دیکھ کر دوپٹہ سے ڈھانپ دیتی
اس کی نیند میں ساراگھرگھوم آتی
: دیوار گرگٴی توبے پردگی ہوگٴی
لیکن یہاں تو ماں رہتی ہے
ماں کاجسم اور خوبصورت ہوجاتاہے
میرابیٹاسورہاتھا
اور میری گڑیاجاگ گٴی تھی
شام نے پھر چٹکی بجاٴی
اور میرا بیٹا کچھ خرید لایا
ربڑکا سانپ
میں سچے لمحے میں چلاٴی ،زہر
یہ زہر تو مصنوعی ہے ماں
اور میری کوکھ مین ربڑکاسانپ رہ گیا
میرے بچے کی شرارت پانچ سال کی ہوگٴی
سورج کی سلاخوں پہ
کپڑے سکھا بیھٹی
انجانے خوف نے آگ پکڑی إ
بچے نے لفظ گوش گزارے
الف سے اللہ،میم سے ماں إ
مین نے لفظ کو ٹھنڈا کیا
: بیٹے میم سے محمد
میم کامطلب تو منور ہوتاہے ماں
پھر آپ کیوں رہی ہیں ؟
بہت سی منور چیزیں رورہی ہیں بیٹا
کھلونے کھیلوں إإ
کھلونے کا لفظ نہ دہرانا بیٹا
: نہیں تو ربڑ کاسانپ زندہ ہوجاٴے گا
ماں تم میرے کھیل سے کھوکیوں جاتی ہو ؟
خوف زدہ کیوں رہتی ہو
جتنے پورنے ڈالاکروں
اتنی ہی تختی لکھاکروبیٹا إ
گیند کبھی دیواروں کو چھو تی کبھی کھوجاتی
کبھی مٹی کی کوکھ بن جاتی
گیند سے کہیں ماں گھرٹوٹے إ
میں کس کے پاس سوٴوں گا
اندیشوں میں جاگ مت لگابیٹے إ
مٹی کی طرح چھاٴوں کے کپڑے نہ پہن
کہیں دکھ زرخیز نہ ہوجاٴیں إ
خاک کوآگ کی بددعا ہے
میرے ہوتے ہوٴے ماں دعا مانگ رہی ہو إ
سورج میرے تلوے چاٹرہاہے إ
کہیں تمہیں نظر نہ لگ جاٴے
پھولوں کے پاس مت جایاکرو
کیامیری ماں کاٴنات کی قید میں ؟
فکر انسانی موڑپہ ہے
اور علم میری قید کاٹ رہاہے
: کڑیاں پہلو میں سورہی ہیں
سمندر کی سطح کھلتی ہی نہیں
گناہ کی پشت دیکھ رہی ہوں إ
چراغ محو ہے انسانوں میں
میں اپنے کھلونوں سے ہی ڈر گٴی تھی
جلی رسیوں پہ نقش پا ٹھہر گیا
: اور فاصلے پہ آنکھ مر گٴی
:‘’ماں کے لفظ پہ زمین ختم ہوجاتی ہے’’
تو میں کہاں کھیلوں گا ؟
: اور ستارے آسمان کو لوری سناتے رہے
بچے کے ہاتھ میں سوٴی چھبی
: اور اس نے درد کو خاموشی پر رکھا
إإ‘’سوٴی سے آواز آٴی ،ماں’’
: میں سمجھی خدا یہی ہے
ستارے گننے سکھاٴے تھے
: کیاخبر تھی کل اسے دیواریں گننا سکھادے گی
“ جب منور چراغوں سے میرے دوپٹے میں آگ لگی”
میرا بچہ آگ سے ڈر گیا
میں خود سے چپھی چپھی اسے شیر چکھاتی
لیکن وہ آگ سے ایسا ڈرا
: کہ میری توماں بیت گٴی
“ میری آہ پہ لوگ قرآن پڑھتے”
مجھے دیکھ کرماٴوں کے سینے سے دودھ بہنے لگتا
اور جب میں میں بچے کو ڈونڈتی
: میرے پستانوں میں دودھ رہ جاتا
ہاتھوں کے کتبے قبرڈھونڈنے لگتے
“خاموش قبریں بھی چلااُٹھتیں”
بچے اور ماں کے درمیان
کوٴی انسانی کڑی رہ جاٴے
: تو بیٹا کنکر سے مکالمہ مت کرنا
میری کتابیں پڑھنا
آگ سے ڈرے ہو
میرے لفظ کی روح سے مت ڈرنا
: کہ روح کادوپٹہ منور چراغوں سے نہیں جلتا
جانے آج تم نے کونسا رنگ پہنا ہوگا”
جانے آج دکھ تمہارے گھر کتنی دیر ٹھہر اہوگا
تمہاری شرارتوں سے کیاریاں بھر گٴی ہوں گی
تمہاری آواز میری آنکھوں جیسی ہوگٴی ہوگی
تمہاری ہنسی مجھ سے مکالمہ کرتی ہوگی
” محلے کے بچے تم سے ماٴون کی شکایت کرتے ہوں گے
کاش میں تمہاری پور سے کانٹانکالتی
اور کسی بھی تہوار پہ یہ خالی ہاتھ تمہیں دے دیتی
: تیری شرارتوں سے میں جوان ہوجاتی
میں نے قدم تہہ کٴے
اور تیری دیوار کے ساتھ کھڑی ہوگٴی
دیوار سانس لینے لگی إ
میں جھری سے تمہیں دیکھتی
آنگن کھیل رہاہوتا لیکن دروازہ بند تھا
جیسے آواز مجھ مر گٴی ہو
اور آنکھوں
نے تجھے گود لے رکھاہو
میری آنکھوں سے تیر سے کنچے کھوگٴے
میرا دوپٹہ کراہتا
اور چراغ ہوا کے ساتھ رقص کرگٴے
پھر آہوں کی بیلوں سے
میں نے دیوار ڈھکی
چراغ مین پھنکارتی آگ
میرے کفن کوگالی بناگٴی
سیاہ آنکھوں والی ماٴیں
رات کی قیدی تھیں
ان کے نیند میں جنے ہوءے بچے
انھیں اتنا جگاجاتے کہ یہ جاگتے میں مرجاٴیں
پھر میں دیپ لے کر کبھی جنگل نہ گٴی
میں کوڑے کے ڈھیر سے آنکھیں اٹھا اٹھا کر پڑھاکرتی
انجانے تارے ٹوٹ رہے تھے
آسمان نے مجھے کہا، ماں إ
اور میری آنکھ آسمان ہوگٴی
چاند نے آدھی بات کہی اور صبح ہوگٴی
مجھے انسانوں کی بھوک لگی
تومیرے کپڑوں نے فاقہ قبول کرلیا
ساٴے ٹل جاٴیں تو دھوپ کی پیداٴش کہاں
اور تم میرے ثواب سے روٹھ گٴے
میں پوری آنکھ سے جل اٹھی
پھول بیٹے إإ
تم جھوٹ بولتی ہو ماں إ
ماں کب آنکھ ناپتی ہے
کچے رنگوں کی پتنگ نہ اڑایا
کہیں موسم پرواز نہ سیکھ لیں
تم پھر پھول توڑلاٴے
اور اس کا نام ماں رکھا
لیکن اکثر پھول باپ کے گناہ سے کالے پڑے تھے
حیرت نے جنم لیا
تو میں نے خدا کوورق ورق پڑھ لیا إ
واقعی تیری کوٴی ماں نہین
: اور نہ تونے کسی کوجنا
میری بوڑھی دعا مجھے تراشتی
اور میں بچے سنگریزوں سے کھلونے بناتی
کھلونے باعمر ہوٴے اور مجھ سے باتیں کرتے
میں نے نٴی زبان دریافت کرلی
اور ماٴوں سے کہا إ
تم دیواروں کی ماں ہو
: اور میں صدیوں کی ماں ہوں
انکار تیرا ماں بانٹے
ضمیر تیری زبان ہو
چاند چٹکی بجاٴے توتورات سمجھ لے
فرصت سے ٹوٹنے لگو
: تومقدر پہ کوٴی نٴی بات لکھ دینا
میرا رب دکھ سے بھی اعلیٰ ہے
میں ایسا پیڑہوٴی
جس کا تابوت بنا، بن لاشہ
عورت ماں ہوجاٴے
: تو خدااس کا دوست ہوجاتاہے
: ہرسنگِ میل پہ لکھاہے ، کون جانے
قدم کے ساتھ فاصلہ رہتاہے
میں نے خاموشی گناہ کیا اور پیدا ہوگٴی
تم نے خاموشی گناہ کیااور ماں سے جد اہوٴے
: اور میں زنجیر جتنی بیدار ہوگٴی
میراہرلباس چراغ ہی سے جلتاہے
تم تو مجھے ایسے دیکھ رہے ہو
جیسے میں نے انسان کو جنم ہی نہیں دیا
دکھ تیرا ذاٴقہ ہو
تیرا بیج میرے بچے کے دکھ جیساہو
تیرا صبر میرے گناہ جیسا ہو
آگ تیری شرم ہو
جنگل تیری آس ہو
معافی تیرا حکم ہو
خوشی تیری فاقہ ہو
ماں تیری آنکھ ہو
بچہ تیرا صبر ہو
مفلسی تیری کماٴی ہو

(سارا شگفتہ)
’’شاعروں کی ایک پرہجوم محفل تھی۔ ضمیر شمع محفل بنے بیٹھے تھے۔ جب حفیظ جالندھری بولے، ’’ضمیر! یہ تو نے اپنے مجموعہ کلام کا نام ’’مافی الضمیر‘‘ کیوں رکھا۔ اس مجموعہ کا مناسب نام تو ’’بے ضمیر‘‘ تھا‘‘۔ ضمیر فوراً بولے، ’’قبلہ، یہ عنوان بھی میرے ذہن میں آیا تھا مگر پھر میں نے سنا کہ آپ اپنی خود نوشت سوانح عمری لکھ رہے ہیں۔ چنانچہ میں نے یہ عنوان اس کے لیے رہنے دیا‘‘۔

(میرے ہم سفر _____ احمد ندیم قاسمی)

Tuesday, 23 September 2014


اللہ دکھ بھری داستان کو بڑے دھیان سے سنتا ہے ۔ کچھ غم مٹا بھی دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کچھ الجھنیں سلجھا بھی دیتا ہے ۔۔ ۔ ۔ لیکن اگر سارے ہی غم سلجھ جائیں تو آدمی اور اس میں بات چیت بند ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ بیماری نہ ہو تو کوئی ڈاکٹر کے پاس کیوں جائے ؟ جھگڑا نہ ہو تو وکیل کس کام کا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ بس خود ہی مصیبت بھیجتا ہے اور خود ہی ثالث بن جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔اگر زندگی میں راحت ہی راحت ہو چین ہی چین ہو تو کون اس کا در کھٹکھٹائے کون اس سے باتیں کرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بانو قدسیہ

ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور شاعر گلزار کے تحریر کردہ مشہور ٹی وی سیریل 'غالب' کو ناول کی صورت میں پاکستان میں بھی شائع کر دیا گیا ہے۔

اردو کے نامور شاعر، خوبصورت فلمی گیتوں اور مکالموں کے خالق، افسانہ نگار و ناقابلِ فراموش فلموں کے ہدایتکار گلزار آج بھی کسی نہ کسی نئے میدان میں اترتے ہیں اور وہاں بھی جھنڈے گاڑ دیتے ہیں۔

گلزار نے کچھ سال پہلے اپنے محبوب شاعر 'مرزا غالب' پر ایک ٹیلی وژن سیریل بنایا تھا جس میں نصیر الدین شاہ نے مرزا اسد اللہ خان غالب کا کردار ادا کیا تھا جبکہ اس میں شامل غزلیات جگجیت سنگھ کی آواز میں ریکارڈ کی گئی تھیں۔

مشہور شاعر گلزار نے کچھ عرصہ پہلے ہی اُس کامیاب ٹی وی سیریل کے منظر نامے کو ایک ناول کی شکل دی ہے جبکہ ان کی یہ تخلیق 'غالب' کے نام سے ہندوستان میں ہندی اور اردو میں شائع ہوئی جبکہ حال ہی میں اسے پاکستان کے ایک ناشر مکتبۂ دانیال نے شائع کیا ہے۔

مکتبہ دانیال ادارہ فیض، قرۃ العین حیدر، کیفی اعظمی، مشتاق یوسفی، جاوید اختر اور گلزار کی بھی نثر اور نظم کے شاہپارے شائع کر چکا ہے۔
مرزا غالب پر لکھے جانے والا یہ ناول پاکستان میں مکتبۂ دانیال کراچی (فون نمبر 021-35681457) سے حاصل کیا جا سکتا ہے

میر تقی میر کی قناعت اور بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ وہ جب گھر سے باہر جاتے تو تمام دروازے کھلے چھوڑ جاتے، اور جب گھر واپس آتے تو تمام دروازے بند کر لیتے ایک دفعہ ان کے ایک دوست نے ان سے ایسے طرز عمل کی وجہ پوچھی تو انھوں نے جواب دیا

"میں ہی تو اس گھر کا واحد دھن اور مال ہوں میرے سوا اس گھر میں رکھا ہی کیا ہے"

میر ہمیشہ تلاش معاش میں ہی سرگرداں رہے اور کبھی با فراغت زندگی بسر نہ ہوئی۔ ان حالات میں شگفتہ مزاجی تو دور کی بات بھرم قائم رکھنا ہی دو بھر ہو جاتا ہے۔ انہی مصائب کے دنوں میں میر کی بیٹی اپنی شادی کے کچھ ہی دنوں بعد انتقال کر گئی۔ میر حالات کی چکی میں پسنے والے کی طرح تڑپ اٹھے اور جنازے پر کھڑے ہو کر کہا

اب آیا خیال ______ اے آرام جاں اس نامرادی میں
کفن دینا تمہیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں

آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک 
کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے ، لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک

غمِ ہستی کا ، اسدؔ ! کس سے ہو جُز مرگ ، علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

مرزا ادللہ خان غالب

میر تقی میر نے محض نو برس کی عمر میں یتیمی کا صدمہ جھیلا۔ بچپن میں والد کی وفات اور پھر چچا کی وفات معاشی مشکلات عشق میں ناکامی اور ملک کے حالات۔ غرض میر تقی میر کی اٹھاسی سالہ زندگی کا محور الم تھا۔ یہ محرومیوں کی ایسی طویل داستان ہے جس میں مفلسی ، رنج و محن، بے دماغی، ناکامی عشق و جنون وغیرہ مختلف ابواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نامساعد حالات اورمعاشی پریشانیوں نے جس ذہنی کرب میں مبتلا رکھا۔ اس کی بنا پر تخلیقی انا اور اس سے وابستہ نفسی پندار ہی زندگی کا سہارا بنا۔ میر نےساری زندگی تکلیفوں میں گزاری اس لیے ان کی شاعری میں غم اور الم کا عنصر نمایاں ہےجیسا کہ وہ خود کہتے ہیں:

مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا

Friday, 29 August 2014


فراق گورکھپوری کے اندر ایک بہت بڑی خاصیت یہ بھی تھی کہ وہ انتہائی حاضر جواب واقع ہوئے تھے اور دل کی ہر اچھی و بری بات کو بے باکانہ طور پر بیان کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ 

ایک مرتبہ فراق صاحب لال قلعہ کے مشاعرے میں شرکت کے لئے دہلی تشریف لائے۔ وہاں ان کی ملاقات ساحر لدھیانوی سے ہوئی۔ انہوں نے ساحر سے کہا کہ— ارے ساحر آج کل تو تم آثار قدیمہ کی بہت اچھی شاعری کر رہے ہو۔ 

تاج محل پر کیا خوب لکھا ہے __

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

ایسا کرو کہ اب جامع مسجد پر بھی لکھ ڈالو __

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی عبادت کا اڑایا ہے مذاق
میرے اللہ _ کہیں اور ملا کر مجھ سے

Tuesday, 26 August 2014

چلو مُحسن مُحبت کی نئی بنیاد رکھتے ھیں
کہ خود پابند رھتے ھیں ، اُسے آزاد رکھتے ھیں
ھمارے خون میں رَب نے عجب تاثیر رکھی ھے
جفائیں بُھول جاتے ھیں ، وَفائیں یاد رکھتے ھیں

”مُحسن نقوی“

ایک دفعہ کسی نے احمد فرازؔ سے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی سوانح عمری کیوں نئی لکھی 

تو احمد فراز نے کہا: آدھا سچ میں لکھنا نہیں چاہتا اور پورا سچ سننے کے لئے ابھی ہماری قوم تیار نہیں ہوئی

Monday, 25 August 2014



احمد فرار بچپن ہی سے ایک بگڑا ہوا بچہ تھا سکول کے زمانے میں پڑھائی میں اس کا جی نہیں لگتا تھا نت نئ شرارتوں سے پوری کلاس کو سر پر اٹھا لیتا نہ خود پڑھتا نہ کسی کو پڑھنے دیتا استادوں کا اس نے ناطقہ بند کر رکھا تھا اسے مار مار کر وہ عاجز آگۓ تھے اور حیران تھے کہ اس لونڈے کا کیا کریں ایک استاد بائیں کان سے بہرہ تھا ایک دفعہ اسے جو شرارت سوجھی تو اس کے بہرے کان کی طرف منہ کر کے کوئی ناروا بات کہہ دی، لیکن معاملہ گڑبڑ ہو گیا وہ اس کا دایاں کان تھا جو بہرہ نہیں تھا استاد بھڑک اٹھا اور فراز کی خوب پٹائی ہوئی
(فارغ بخاری)

ہوم ورک کر کے نہ لانے پر، فراز کو صبح ہی سخت سردی میں ہاتھوں پر بید کھانے پڑے دوسرے دن اس نے ماسٹر سے بدلہ لینے کی ایک نئ ترکیب سوچی، اسکول آٹھ بجے لگتا تھا لڑکے ساڑھے سات بجے تک گراؤنڈ میں پہنچ جاتے اور اسمبلی سے پہلے مختلف کھیل کھیلتے رہتے فراز نے اس صبح کلاس کے تمام لڑکوں کو سکھا دیا کہ جب ماسٹر گرلکھ سنگھ اسمبلی کے بعد میدان میں حاضری لے تو کوئی بھی اپنا رول نمر سن کر "یس سر" نہ کہے سو ایسا ہی ہوا پہلا نام سمیع الدین کا تھا دوسرا عبدالرزاق، غرض ایک خاموشی تھی گرلکھ سنگھ اس بے عزتی پر جھلا گیا فراز چونکہ نیا نیا داخل ہوا تھا اس لیے اس کا نام سب سے آخر میں تھا لہذا جب ماسٹر نے آخری نام پکارا تو اس نے کہا "یس سر" پرنسپل بھی وہاں موجود تھا اس نے یہ کاروائی دیکھی فراز کو پر نسپل اپنے کمرے میں لے گیا اور پوری کلاس کے ہاتھوں پر بید مارے اب فراز کو پتہ تھا میری خیر نہیں اس لیے وہ چپکے سے گھر بھاگ گیا اور کئ دن تک اسکول نہیں آیا
(توصیف تبسم)

فراز کی کسی بات پر پٹائی ہوتی تو اکثر بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہو جاتی تھی بید ہاتھ پر پڑتا تو بید کا دوسرا سرا مضبوطی سے ہاتھ میں تھام لیتا اب استاد اور شاگرد میں کھینچا تانی شروع ہو جاتی ماسٹر جھلا اٹھتا اور دیکھنے والے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے کلاس روم میں ڈیسک تھے جو تین قطاروں میں تھے کلاس انچارج گرلکھ سنگھ کی عادت تھی کہ وہ پیریڈ کے دوران، کلاس میں ڈیسکوں کے درمیان گھومتا رہتا تھا وہ جب فراز کے پاس سے گزرتا تو وہ فاؤنٹین پین اٹھا کر روشنائی اس کی پتلون یا قمیض کے پچھلے حصے پر چھڑک دیتا سفید پتلون پر روشنائی کے نقش و نگار دور ہی سے نظر آ جاتے تھے
(توصیف تبسم)

ماسٹر سونڈی تاریخ پڑھاتا تھا جہاں پیراگراف ختم ہوا "اور بابر نے پانی پت کی تیسری لڑائی جیت لئ" تو فراز ایک لمبی سی "اچھا" کہتا یہ اس بات کا اشارہ ہوتا کہ بات ہم سب کی سمجھ میں آ گئ ہے اور ماسٹر جوابا" لمبی سی "ہاں..ں..ں" کہتا ایک مرتبہ "ہاں" کچھ زیادہ ہی لمبی ہو گئ تو پوری کلاس کی ہنسی نکل گئ جس پر سونڈی کو غصہ آ گیا اور اس نے فراز کو بید مارنے شروع کر دئیے فراز نے حسب عادت بید کا سرا مٹھی میں پکڑ لیا اور اس کھینچاتانی میں ماسٹر کا غصہ بڑھتا گیا مارتے مارتے سونڈی نے فراز کو اسکول کے بڑے گیٹ سے باہر دھکیل دیا اور حکم دیا کہ کل باپ کو ساتھ لے کر آنا دوسرا دن آیا تو فراز کے ساتھ ایک لفنگا تھا جس کی شلوار کا ایک پائنچہ اوپر اور ایک نیچے تھا کندھے پر میلی چادر اور ہاتھ میں بٹیر اس لفنگے نے اسکول آکر اودھم مچا دیا عملے کے لوگ اس کو ہیڈ ماسٹر کے پاس لے گۓ ہیڈ ماسٹر نے فراز سے پوچھا: یہ کون ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ سر آپ ہی نے تو کہا تھا کہ باپ کو ساتھ لے کر آنا
(توصیف تبسم)

میں نے پیالی اٹھائی، چاۓ کا ایک گھونٹ لیا اور برا سا منہ بنا کر پیالی میز پر رکھ دی "اس میں تو چینی نہیں ہے"
فراز بولا "سامنے اتنے چینی پھر رہے کسی کو اٹھا کر ڈال لو(ہم اس وقت چین میں موجود تھے)
میز پر دودھ نہ دیکھ کر وہ چینی ویٹرس کو خاصی دیر سمجھانے کی کوشش کرتا رہا تھا کہ ہم چاۓ میں دودھ بھی ڈالتے ہیں جب ویٹرس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو اس نے انگھوٹھا منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا اور وہ زرد رو چینی لڑکی سچ مچ سرخ ہو گئ تھی اور اس کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ ہم کیا مانگ رہے ہیں
(مسعود اشعر)

فراز صاحب سو رہے تھے فون کی گھنٹی بجی غصے میں فون اٹھایا تو دوسری طرف سے آواز آئی "میں یوسف لودھی بول رہا ہوں، ایک الجھن تھی اس لیے تمہیں فون کیا"
فراز نے کہا "فرمائیے"
لودھی نے کہا "بس اتنا بتا دو کہ یہ جو قہقہہ کا لفظ وہ قلم والے "کاف" سے ہے یا کتے والے "کاف" سے ؟
(اہل پنجاب کے یہاں "ق" اور "ک" کے مخرج میں کوئی خاص فرق نہیں)
فراز نے جل کر کہا "یوں تو قہقہہ قلم والے کاف سے ہے، اگر یہ قہقہے تمہارے ہیں تو پھر کتے والے کاف سے ہیں"
(توصیف تبسم)

ریاض انور نے خواجہ فرید کی ایک کافی فراز کو اردو ترجمہ کرنے کے لۓ دی اب سرائیکی میں محبوب کو "پنل"(پ ن ل) بھی کہتے ہیں ترجمہ کرتے ہوۓ کافی میں یہ لفظ آیا تو فراز سیدھا ریاض انور کی بیوی کے پاس پہنچا "بھابی یہاں "نپل"(ن پ ل) کا کیا مطلب ہے ؟ یہ نپل یہاں کیسے آ گیا ؟ وہ شریف عورت پہلے تو شرمائی پھر شرماتے شرماتے اس نے اس کا مطلب بتا دیا
(مسعود اشعر)

ڈیرہ غازی خان میں پچیس روپے کا ایک مشاعرہ پڑھنے میں اور محسن نقوی پہنچے وہاں احسان دانش، قتیل شفائی، عدم صاحب، فراز صاحب سبھی بڑے شاعر موجود تھے عدم کی جب باری آئی تو محفل عروج پر تھی عدم کو بہت داد ملی لوگ مسلسل انہیں داد دے رہے تھے عدم صاحب سے کھڑا نہیں ہوا جاتا تھا کسی نے کہا عدم صاحب کو کرسی لا کر دیں فراز نے بلند آواز سے کہا انہیں کرسی کی نہیں آیت الکرسی کی ضرورت ہے
(اصغر ندیم سید)

ایک دفعہ فراز کو اسلام آباد آنا تھا دوپہر کے کھانے کا وقت تھا ہم نے کہا چلو چائینز ریسٹورنٹ میں چل کر سوپ پی لیتے ہیں سوپ کے پیالے میں آخر میں ایک کنکر نظر آ گیا ہم دونوں نے شور مچا دیا وہ بے چارے ترلے منتیں کرتے رہے کہ دوسرے نہ سن لیں، جلدی سے ایک اور سوپ کا بھرا ہوا پیالہ لے آۓ، ہم نے وہ بھی سوپ پی لیا جب ہم اٹھ کر جانے لگے تو فراز نے کہا "اب ہم آئندہ اپنا کنکر ساتھ لے کر آئیں گے"
(کشور ناہید)

ضیاء جعفری نے حسب معمول تقریر لکھی اور فراز کو دے دی کہ ذرا اس کو دیکھ لو فراز کو جو شرارت سوجھی تو اس نے جہاں "کا" وہاں "کی" کر دیا اور جہاں "کی" تھا وہاں " کے" کر دیا اور جہاں "کے" تھا وہ "کا" بنا دیا اب جو ضیاء جعفری اسکرپٹ لے کر مائیک پر آۓ تو کچھ اس قسم کی تقریر ہوئی:
"محرم الحرام کی مہینہ، معاف کیجۓ کا مہینہ تمام دنیا کا مسلمانوں، نہیں کے مسلمانوں کے لۓ ایک متبرک اور حد درجہ محترم مہینہ ہے یہ سانحہ جس کا نظیر، جی نہیں جس کی نظیر دنیا کے تاریخ، معاف کیجۓ، دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی، ایک انتہائی دلگداز واقع ہے"
(توصیف تبسم)

میں اپنے بچوں کے ساتھ لنچ کر رھی تھی کہ فراز ثمینہ پیر زادہ اور ثمینہ راجہ کے ساتھ داخل ہوۓ، ملاقات ہوئی تو میں نے کہا "واہ کیا کہنے ایک چھوڑ دو دو ثمینائیں"
کہنے لگے "ہاں بھئ دن میں تو ثمینائیں ہوتی ہیں، شام کو مینائیں(مینا کی جمع) ہوتی ہیں" فراز نے فورا" ثمینہ کا قافیہ ساغر و مینا سے ملاتے ہوۓ کہا
(شمیم اکرام الحق)

ایک بار کسی محفل میں جب میں داخل ہوئی تو فراز نے حسب عادت اٹھ کر کہا "لو جی میری بہن بھی آ گئیں" کچھ دیر بعد ایک صحافی آۓ تو انہوں نے بھی مجھے "باجی" کہہ کر سلام کیا اس پر فراز کی ایک دوست نے مجھ پر طنز کرتے ہوۓ کہا "کیا بات ہے سب تمہیں بہن کہتے ہیں اتنے بہت سے بھائی؟" اس سے پہلے میں کوئی جواب دیتی فراز فورا" بولے "تو اس میں کیا برائی ہے، برائی تو یہ ہے کہ کسی خاتون کے بہت سے عاشق ہوں" ان خاتون کا رنگ ایک دم زرد پڑ گیا اور محفل قہقہوں سے بھر گئ
(شمیم اکرام الحق)

1996ء میں لندن میں پاکستانی سفارت خانے میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا وہاں پر احمد فراز نے جب اپنی غزل "سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں" سنائی تھی تو آخری شعر کا پہلا مصرعہ پڑھنے پر، "اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں" سامعین میں سے بے شمار لڑکیوں کی آواز ایک ساتھ گونج اٹھی تھی "ٹھہر جائیں، پلیز ٹھہر جائیں"
(ثروت محی الدین)

ایک دن فراز صاحب اپنے ایک دوست کے گھر گئے، اس کے ملازم نے کہا، صاحب سیر سور کرنے گئے ہیں۔ فراز نے کہا ،اس کو درست کر لو۔’’ سور سیر کرنے گئے ہیں‘‘

میڈم نورجہاں سے فراز نے پوچھا ،میڈم آپ نے کتنے عشق کئے ہیں میڈم نہ نہ کرتی رہیں،
فراز نے کہا، میڈم نہ نہ کرتے ہوئے بھی آپ کے تیرہ عشق ہو گئے ہیں۔

کراچی کے ایک مشاعرے میں ۔ ایک شاعر اجمل سراج ( جسارت سے وابستہ ہیں )۔
نے فراز صاحب سے ایک انتہائی بھونڈا سوال کیا (‌ویسے اس سوال کی بازگشت خاصی ہے) کہ فراز صاحب:
’’ کیا با ت ہے آپ ایک خاص دائرے ( ٹین ایج )عنفوان ِ شباب کے شاعر ہیں ‘‘ ۔۔ ؟؟
فراز صاحب نے جیسے کوئی تاثر بھی نہ ظاہر کیا اور سلیم کوثر صاحب سے مخاطب ہوکر کہا ۔
’’ میرے لیے یہ بات حیران کن ہے میری شاعری کا دائرہ دریافت کرلیا گیا ہے ، جبکہ میں خود کو کسی دائرے کا شاعر نہیں خیال کرتا ‘‘

آج اردو کے نامور شاعر احمد فراز کی چھٹی برسی ہے ۔

احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ء کو نوشہرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سید محمد شاہ برق کوہائی فارسی کے ممتاز شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ احمد فراز نے اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور ریڈیو پاکستان سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بعدازاں وہ پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرار منسلک ہوگئے۔ وہ پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فاﺅنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔

احمد فراز عہد حاضر کے مقبول ترین شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ انہیں بالعموم رومان کا شاعر کہا جاتا ہے مگر وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف ہر دور میں احتجاج کا پرچم بلند کرتے رہے جس کی پاداش میں انہیں مختلف پابندیاں بھی جھیلنی پڑیں اور جلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔

احمد فراز کے مجموعہ ہائے کلام میں تنہا تنہا، درد آشوب، نایافت، شب خون، مرے خواب ریزہ ریزہ، جاناں جاناں، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، سب آوازیں میری ہیں، پس انداز موسم، بودلک، غزل بہانہ کروں اور اے عشق جنوں پیشہ کے نام شامل ہیں۔ ان کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔

احمد فراز کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، سرارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔ ہلال امتیاز کا اعزاز انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی تھی

احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

Sunday, 24 August 2014





آج سے قریباً 22 برس قبل شہزاد صاحب کی حرکت قلب ہسپتال میں باقاعدہ بند ہو گئی اور یہ کیفیت ان پر چند منٹ تواتر سے جاری رہی۔ ڈاکٹروں نے حسب توفیق ان کی موت کا اعلان بھی کر دیا مگر حرکت قلب چند منٹ بعد پراسرار طور پر بحال ہو گئی۔ شہزاد صاحب نے بتایا کہ اصطلاحاً اس ”واردات ِ قلبی“ کو ”کلینکل ڈیتھ“ (Clinical death) قرار دیا جاتا ہے اس تجربے کو شعری سانچے میں آپ نے کیاخوب ڈھالا:

بس ایک لمحے میں کیا کچھ گزر گئی دل پر
بحال ہوتے ہوئے ہم نے ـــــــــــ اک زمانہ لیا!


"قبریں"

کیسے چپ چاپ ہی مر جاتے ہیں کچھ لوگ یہاں
کیسے چپ چاپ ہی مر جاتے ہیں کچھ لوگ یہاں
جسم کی ٹھنڈی سی تاریک سیاہ قبر کے اندر
نہ کسی سانس کی آواز
نہ سسکی کوئی
نہ کوئی آہ
نہ جنبش
نہ آہٹ کوئی
ایسے چپ چاپ ہی مر جاتے ہیں کچھ لوگ یہاں
ان کو دفنانے کی ذحمت بھی اٹھانا نہیں پڑتی
ایسے چپ چاپ ہی مر جاتے ہیں کچھ لوگ یہاں

شاعر: گلزار

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سےبڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں۔۔۔ ۔
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں۔۔۔ ۔
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا
زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے۔۔۔ ۔۔
بہت کچھ تہ بہ تہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا، کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم-سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہو گا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے

شاعر: گلزار

Friday, 22 August 2014


دنیا آگ کی مانند ہے اور آگ اپنے پجاری کو بھی جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ اس شکارگاہ میں ہر کوئی شکار ہے کہ ملک الموت جیسا میر شکار کوئی دوسرا نہیں کہ اس کے نشانے سے نہ کوئی بچا نہ آئندہ بچ پائے گا۔ وہ کون ہے جو سرائے کو گھر سمجھ لیتا ہے اور گزرگاہ کو منزل؟ 
انسان دنیا جمع کرتے وقت یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آخرکار یہ دنیا انہیں منتشر کرکے رکھ دے گی۔

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا

دنیا… دنائیت سے ہے جس کا مطلب ہی ذلت اور کمینگی ہے۔ خواب کا علم آنکھ کھلنے پر ہوتا ہے اور زندگی کے خواب کا آنکھیں بند ہونے پر کہ یہ تو پانی پر عکس سے بھی زیادہ بے معنی ہے۔ سو یوں رہو جیسے پرندہ انڈے میں رہتا ہے یا سر بانسری میں سوئے ہوتے ہیں۔
خلیفہ واثق باللہ نے مرتے وقت جو شعر پڑھے ان کا ترجمہ کچھ یوں ہوگا کہ ”نہ بازاری لوگ بچیں گے نہ بادشاہ ہی زندہ رہیں گے۔

"غریبوں کو ان کی قبرں نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور امیروں کو ان کی قبریں کوئی راحت نہ پہنچا سکیں۔“

حسن نثار کے کالم "گھر جاندی نے ڈرنا" سے اقتباس

ادا جعفری 22 اگست 1924ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا اصل نام عزیز جہاں ہے۔ ادا تین سال کی تھیں جب انکے والد مولوی بدرالحسن کا انتقال ہو گیا جس کے بعد انکی پرورش اپنے ننھیال میں ہوئی۔

ادا جعفری نے تیرہ برس کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی اور وہ ادا بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں۔ اُس وقت ادبی رسالوں میں ان کا کلام شائع ہونا شروع ہوگیا تھا۔ آپ کی شادی 1947ء میں نور الحسن جعفری سے انجام پائی جس کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں۔ ادا جعفری اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی رہیں ۔

ادا جعفری کے شعری سفر کا باقاعدہ آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے وقت ہوا اور وہ کم و بیش پچاس سال سے شعر کہہ رہی ہیں۔ انکا شمار موجودہ دور کے صفِ اول کے معتبر شعراء میں ہوتا ہے۔ انکی شاعری میں شعورِ حیات اور دل آویزی، حرف و صورت کی شگفتگی اور فکر و خیال کی تازگی موجود ہے۔

ادا صاحبہ کے مجموعہ ہائے کلام میں "شہرِ درد، میں ساز ڈھونڈتی رہی اور غزالاں تم تو واقف ہو" شامل ہیں۔ اُنکی کلیات کا مجموعہ "موسم موسم" کے نام سے 2002ء میں شائع ہوا۔ انہوں نے اپنی خود نوشت "جو رہی بے خبری رہی" کے نام سے تحریر کی۔ ادا جعفری نے جاپانی صنفِ سخن ہائیکو پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ " سازِ سخن بہانہ ہے" ان کی ہائیکو کا مجموعہ ہے۔

ان کے شعری مجموعے "شہر ِدرد" کو 1968ء میں آدم جی ایوارڈ ملا۔ 1991ء میں حکومتِ پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغۂ امتیاز سے نوازا۔ ادا جعفری کراچی میں مقیم ہیں۔

آج اردو اور پنجابی کے نامور ادیب، افسانہ و ڈرامہ نگار، دانشور، براڈ کاسٹر اور صوفی جناب اشفاق احمد کی سال گرہ ہے ۔

اشفاق احمد 22 اگست 1925ء کو مکتسر ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا، اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے، اور نیویارک یونیورسٹی سے براڈکاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔ انہوں نے دیال سنگھ کالج لاہور میں دو سال تک اردو کے لیکچرر کے طور پر کام کیا اور بعد میں روم یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوگۓ۔وطن واپس آکر انہوں نے ادبی مجلہ داستان گو جاری کیا جو اردو کے آفسٹ طباعت میں چھپنے والے ابتدائی رسالوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے دو سال ہفت روزہ لیل و نہار کی ادارت بھی کی۔

وہ انیس سو سڑسٹھ میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد میں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہوگیا۔ وہ انیس سو نواسی تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔ وہ صدر جنرل ضیاءالحق کےدور میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی مقرر کیے گۓ۔اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے اور انیس سو ترپن میں ان کا افسانہ گڈریا ان کی شہرت کا باعث بنا۔ انہوں نے اردو میں پنجابی الفاظ کا تخلیقی طور پر استعمال کیا اور ایک خوبصورت شگفتہ نثر ایجاد کی جو ان ہی کا وصف سمجھی جاتی ہے۔ اردو ادب میں کہانی لکھنے کے فن پر اشفاق احمد کو جتنا عبور تھا وہ کم لوگوں کے حصہ میں آیا۔

ایک محبت سو افسانے اور اجلے پھول ان کے ابتدائی افسانوں کے مجموعے ہیں۔ بعد میں سفردر سفر (سفرنامہ) ، کھیل کہانی (ناول) ، ایک محبت سو ڈرامے (ڈرامے) اور توتا کہانی (ڈرامے) ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔ انیس سو پینسٹھ سے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک ہفتہ وار فیچر پروگرام تلقین شاہ کے نام سے کرنا شروع کیا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور دومعنی گفتگو کے باعث مقبول عام ہوا اور تیس سال سے زیادہ چلتا رہا۔

ساٹھ کی دہائی میں اشفاق احمد نے دھوپ اور سائے نام سے ایک نئی طرح کی فیچر فلم بنائی جس کے گیت مشہور شاعر منیر نیازی نے لکھے اور طفیل نیازی نے اس کی موسیقی ترتیب دی تھی اور اداکار قوی خان اس میں پہلی مرتبہ ہیرو کے طور پر آئے تھے۔ اس فلم کا مشہور گانا تھا اس پاس نہ کئی گاؤں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے۔ تاہم فلم باکس آفس پر ناکامیاب ہوگئی۔

ستر کی دہائی کے شروع میں اشفاق احمد نے معاشرتی اور رومانی موضوعات پر ایک محبت سو افسانے کے نام سے ایک ڈرامہ سیریز لکھی اور اسی کی دہائی میں ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا نشر ہوئی۔ توتا کہانی اور من چلے کا سودا میں وہ تصوف کی طرف مائل ہوگۓ اور ان پر خاصی تنقید کی گئی۔ اشفاق احمد اپنے ڈراموں میں پلاٹ سے زیادہ مکالمے پر زور دیتے تھے اور ان کے کردار طویل گفتگو کرتے تھے۔ کچھ عرصہ سے وہ پاکستان ٹیلی وژن پر زاویے کے نام سے ایک پروگرام کرتے رہے جس میں وہ اپنے مخصوص انداز میں قصے اور کہانیاں سناتے تھے۔

حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات عطا کیے تھے ۔ اشفاق احمد 7 ستمبر 2004ء کو لاہور میں وفات پاگئے اور ماڈل ٹاﺅن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے ۔

Thursday, 21 August 2014





حریت میں ملازمت کے بیان میں رضا علی عابدی صاحب نے اپنے ساتھی عنایت اللہ کا ذکر کیا ہے جو اخبار کو پریس میں بھیجنے سے قبل ہمیشہ کہا کرتے تھے ۔: ’’ اس میں شک ڈالو‘‘۔۔مطلب یہ کہ اچھی طرح دیکھ لو کہ کہیں کوئی غلطی تو نہیں۔
بقول رضا علی عابدی ، ’ وہ کم بخت ہمیشہ نکلتی تھی۔‘

اسی ضمن میں لکھتے ہیں:

’’ایک بار میں اخبار پر آخری نظر ڈال رہا تھا ، دیکھا کہ ایک چھوٹی سی خبر پر سرخی لگی ہے جس میں لکھا ہے "علامہ رشید شرابی علیل ہیں" ، ‘رشید ترابی کے نام کا یہ حشر پہلے تو کاتب نے کیا، پھر پروف ریڈر نے کیا۔

ایک مرتبہ ایک اور سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا ، رات پوری طرح ڈھل چکی تھی ، آنکھیں منتظر تھیں کہ کام ختم ہو او ر گھر جائیں، آخری دو صفحات پر کڑی نظر ڈالی جارہی تھی، سرخی لگی تھی: "صدر ایوب غلیل ہوگئے۔"
اگر یہ خبر یونہی چھپ جاتی تو میں اپنی زندگی کا آخری مصرعہ کہتا:
"ایک ُغلہ میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے "

رضا علی عابدی نے مصطفی زیدی کے ساتھ نیم مردہ حالت میں پائی جانے والی خاتون شہناز کا احوال بھی اپنے دلچسپ انداز میں لکھا ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ پہلے یہ خبر بطور ایک چھوٹی خبر موصول ہوئی کہ ایک سرکاری افسر نے خودکشی کرلی ہے، جب خبر پھیلی کہ متوفی مصطفی زیدی ہیں تو تمام اخبارات اس خبر کی تفصیل کے پیچھے پڑ گئے اور بقول عابدی صاحب ایسی ایسی داستانیں نکال کر لائے کہ مصطفی زیدی اگر اس وقت بچ جاتے تو اب مرجاتے۔ عدالت میں "حریت" کے فوٹو گرافر نے شہناز گل کی ایک قد آدم تصویر کھینچ لی۔ رضا علی عابدی بیان کرتے ہیں کہ اس واقعے کے کافی عرصے کے بعد افتخار عارف نے ایک تقریب میں شہناز گل سے کہا کہ ’ابھی تو آپ پر دس بیس شاعر اور قربان ہوسکتے ہیں۔‘ —

یوں تو آپس کی روٹھ راٹھ ، چھوٹی موٹی ناراضگیاں ہمارے درمیان درجنوں بار ویسے ہی ہوئیں جیسے ہر میاں بیوی کے درمیان ہونا چاہیے۔ لیکن ہماری اصل بڑی لڑائی ایک بار ہوئی، اسلام آباد میں ہم نے اپنے ڈرائنگ روم کے لئے قالین خریدنا تھا، میں نے بڑے شوق سے ایک قالین پسند کیا جس کی زمین سفید اور رنگین پھول تھے، عفت نے اُسے یوں مسترد کر دیا جیسے سبزی فروش کو اُلٹے ہاتھوں باسی پالک، مولی، گاجر اور گوبھی کے پھول لوٹا رہی ہو، مجھے بڑا رنج ہوا۔ گھر آ کر میں نے سارا دن اُس سے کوئی بات نہ کی۔
رات کو وہ کہنے لگی
دیکھ تیرا منہ پہلے ہی بڑا گول ہے، جب تُو ناراض ہوتا ہے تو یہ اور بھی گول مٹول ہو جاتا ہے، آج بھلا تُو اتنا ناراض کیوں ہے؟
میں نے قالین کی بات اُٹھائی۔
قالین تو نہایت عمدہ ہے
اُس نے کہا
لیکن ہمارے کام کا نہیں
میں نے پوچھا
کیوں؟
دراصل بات یہ ہے
وہ بولی، جن لوگوں کے لئے یہ قالین بنا ہے، اُن میں سے کوئی ہمارے ہاں نہیں آتا۔
کیا مطلب؟ میں نے تلخی سے دریافت کیا
وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی اور اسکول کی اُستانی کی طرح بڑی وضاحت سے گِن گِن کر سمجھانے لگی کہ ہمارے ہاں ابنِ انشاء آتا ہے، وہ پھسکڑا مار کر فرش پر بیٹھ جاتا ہے، ایک طرف مالٹے، دوسری طرف مونگ پھلی، سامنے گنڈیریوں کا ڈھیر، جمیل الدین عالی آتا ہے، آتے ہی فرش پر لیٹ جاتا ہے اور سگریٹ پر سگریٹ پی کر اُن کی راکھ ایش ٹرے میں نہیں بلکہ اپنے ارد گرد قالین پر بکھیرتا ہے۔ ممتاز مفتی ایک ہاتھ میں کُھلے پان اور دوسرے ہاتھ میں زردے کی پڑیا لئے آتا ہے۔ اشفاق احمد قالین پر اخبار بچھا کر اس پر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔ ملتان سے ایثار راعی آم اور خربوزے لے کر آئے گا، ڈھاکہ سے جسیم الدین کیلے اور رس گُلوں کی ٹپکتی ہوئی ٹوکری لائے گا، وہ یہ سب تحفے لا کر بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں، سال میں کئی بار ممتاز حسین شاہ بی۔ اے، ساٹھ سال کی عمر میں ایم ۔ اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور فاؤنٹین پین چِھڑک چِھڑک کر اپنی پڑھائی کرتا ہے، صرف ایک راجہ شفیع ہے جب کبھی وہ مکئی کی روٹی، سرسوں کا ساگ اور تازہ مکھن اپنے گاؤں سے لے کر آتا ہے تو آتے ہی انہیں قالین پر نہیں اُنڈیلتا بلکہ بڑے قرینے سے باورچی خانے میں جا کر رکھ دیتا ہے، کیونکہ نہ تو وہ شاعر ہے نہ ادیب، فقط ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔ بات نہایت سچی تھی، چناںچہ ہم نے ایک نہایت میل خوردہ قالین خرید کر آپس میں صلح کر لی۔

شہاب نامہ سے اقتباس۔۔ از قدرت اللہ شہاب۔


اسلام آباد کے قبرستان میں پروین کو رخصت کرنے والے بہت کم لوگ تھے، اُس کی عزیز داری کراچی میں تھی اور وہاں سے یہاں آج ہی کے دن پہنچنا مشکل تھا، کچھ ادیب تھے اور اُس کے محکمے کے کچھ لوگ۔۔۔

آخری لمحوں میں اُس کے ایک بھائی بھی پہنچ گئے۔۔۔ لیکن اس سے پیشتر یہی مسئلہ در پیش تھا کہ اُسے لحد میں کون اتارے گا کیونکہ کوئی نامحرم ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔ ہم چار پانچ لوگ قبر کی مٹی کے ڈھیر پر کھڑے تھے اور میرے برابر میں افتخار عارف اپنے آپ کو بمشکل سنبھالتے تھے۔

جنازہ تو ہو چکا تھا جو اہل تشیع کے عقیدے کی نمائندگی کرتا تھا۔۔۔
ہم نے کچھ دیر انتظار کیا اس اُلجھن کا شکار رہے کہ اگر اُن کا کوئی نزدیکی عزیز بروقت نہ پہنچا تو پروین کو لحد میں کیسے اتارا جائے گا۔۔۔ مجھے مکمل تفصیل تو یاد نہیں رہی کہ اس کے بھائی کب پہنچے لیکن یہ یاد ہے کہ کسی نے سفید کفن میں لپٹی پروین شاکر کو افتخار عارف کے بڑھے ہوئے ہاتھوں میں دے دیا۔۔۔

افتخار اُسے تھامے ہوئے قبر میں اترنے کو تھے کہ یکدم اُن کا رنگ زرد پڑ گیا، ہاتھ لرزنے لگے۔۔۔ شاید انہیں انجائنا کا درد شروع ہو گیا تھا، انہوں نے یکدم مجھ سے کہا ’’تارڑ ، پروین کو سنبھال لو۔۔۔‘‘ میں نے بازو واکیے اور پروین کے جسد خاکی کو تھام لیا۔۔۔ اور تب میں زندگی کے ایک ناقابل بیان تجربے سے دو چار ہوا جس کے بارے میں اب بھی سوچتا ہوں تو سناٹے میں آجاتا ہوں۔۔۔

پروین دھان پان سی لڑکی تھی، موت کے باوجود وہ بہت بھاری نہ تھی،
میں جان بوجھ کر اُس جانب نہ دیکھتا تھا جدھر اُس کا چہرہ کفن میں بندھا تھا اور پھر میں نے محسوس کیا کہ میرے دائیں ہاتھ کی اُنگلیاں کفن میں روپوش پروین کی مردہ اُنگلیوں پر ہیں، اُنہیں چھو رہی ہیں، انہیں تھام رکھا ہے۔۔۔

میں اُن کی بناوٹ محسوس کر رہا تھا اور اُس لمحے مجھے خیال آیا کہ یہ پروین کا لکھنے والا ہاتھ ہے۔۔۔ انہی اُنگلیوں سے اُس نے وہ سب شعر لکھے جو ایک ز مانے کے دل پسند ہوئے، ایک داستان ہوئے۔ اور پھر مجھے وہ شعر یاد آیا جو ایک خاتون نے لکھ کر مجھے رسوا اور شرمندہ کر دیا تھا، وہ شعر بھی تو انہی انگلیوں نے لکھا تھا۔

اور آج میں انہیں بے جان حالت میں اپنی انگلیوں سے تھامے ہوئے ہوں۔۔۔
یہ لمحہ، یہ کیفیت آج تک میرے بدن پر ثبت ہے، میں آج بھی پروین کی اُنگلیوں کی موت کو محسوس کرتا ہوں۔۔۔ اس دوران پروین کے بھائی کراچی سے آ چکے تھے، مجھ سے لحد میں اترا نہ جاتا تھا، کسی اور شخص نے میری مدد کی اور ہم نے اس کے مردہ بدن کو قبر میں کھڑے اُس کے بھائی یا عزیز کے سپرد کر دیا۔۔۔

مستنصر حسین تارڑ

Wednesday, 20 August 2014


عزیز سے عزیز ترین رشتہ بھی بھوک کے اس احساس کو مٹا نہی سکتا...... ہم اپنے آس پاس روز کیسے کیسے دلداروں کو جان سے زیادہ عزیز رشتوں کو خود سے جدا ہوتا اور مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ ان سے جڑے بے بس انسان جو اس لمحے خود کو بھی مٹتا محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔۔جن کی بھوک پیاس سب ختم ہو چکی ہوتی ہے، جنہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس بے جان جسم کے ساتھ ان کا لاشہ بھی قبر میں ُتار دیا گیا ہے اور وہ اب کبھی اس جیتی جاگتی دنیا کے ساتھ چل نہی پائیں گے- جن کا ہر احساس اُس لمحے مٹی ہو چکا ہوتا ہے۔۔۔ لیکن 24 یا 48 گھنٹوں کی مختصر مدت کے بعد یہ معدہ انسان کواس کی کم ظرفی، بے بسی اور مجبوری کا احسان دلانے کے لیے جاگ اُٹھتا ہے،،،،،، بھوگ اسے ستانے لگتی ہے........!!"

ہاشم ندیم کے ناول "خدا اور محبت" سے اقتباس


گلزار صاحب پاکستان کے شہر جہلم کے قریب دینہ میں 18 اگست 1936ء کو پیدا ہوۓ۔ اصلی نام سمپیورن سنگھ ہے۔ تقسیم برصغیر کے وقت وہ بھارت چلے گۓ۔ ابتدائی زندگی میں موٹر مکینک تھے۔ شاعری اور فلمی دنیا کی طرف رحجان انھیں فلمی صنعت کی طرف لے گیا۔ گلزار نے فلمی اداکارہ راکھی سے شادی کی۔

گلزار نے بطور ہدایتکار اجازت ، انگور ، دل سے ، معصوم آندھی، پریچے، موسم اور ماچس جیسی فلمیں بنائیں ۔ ان کا ٹیلی ڈرامہ مرزا غالب ایک کلاسیک کی حیثت رکھتا ہے۔

گلزار نے بطور شاعر بے شمار فلموں میں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی فلمی شاعری میں بھی ایک اچھوتا پن پایا جاتا ہے۔ ان کے انوکھے اور نادر تشہبات کا استعمال ان کے گیتوں میں نئے رنگ بھر دیتا ہے۔ ان کے گیت نہ صرف ماضی میں پسند کیے جاتے رہے ہیں بلکہ آج کے دور میں بھی ان کے گانوں کو نوجوان شوق سے سنتے ہیں۔

سنیما بین چار سال قبل ریلیز ہوئی مشہور فلم بنٹی اور ببلی کے سپرہٹ گانے ’کجرا رے’ کو نہیں بھولے یا پھر فلم اوم کارا کا انتہائی مقبول گانا ’بیڑی جلائی لے‘ یا پھر حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم کمینے کا ہٹ نغمہ ’رات کے بارہ بجے’ ہو جو آج بھی ٹاپ دس گانوں کی فہرست میں شامل رہتا ہے، گلزار کی قلم سے نکلا ہر نغمہ عوام کے دل و دماغ پر مخصوص چھاپ چھوڑ جاتا ہے۔ فلم سلم ڈاگ ملینئیر کے لیے لکھے گئے گیتوں پر ان کو آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

گلزار نے اردو میں شاعری کی اور گیت لکھے جو ہمیشہ کانوں میں رس گھولتے رہتے ہیں۔ انھیں 2004ء میں بھارتی حکومت کی طرف سے پدما بھوشن کا خطاب ملا۔ اُن کی بے لوث خدمات کے لیے 11ویں اوسِیانز سِنے فین فلم فیسٹیول کی جانب سے 2009ء کا لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ دینے کا اعلان کیا۔ ان کی گیتوں کے تراجم کی انگریزی میں کتاب بھی شائع ہو چکی ہے۔ گلزار کی غزلوں کا ایک بہت مشہور آڈیو البم "مراسم" کچھ سال قبل ریلیز ہوا تھا جس کی غزلوں کو جگجیت سنگھ نے اپنی آواز کے جادو سے پیش کیا ہے۔

گلزار ، اردو ، پنجابی ، بنگالی اور انگریزی ادب کے شیدائی ہیں اور ان زبانوں پر ان کو مکمل عبور بھی حاصل ہے جس کی واضح جھلک ان کے تخلیقی کاموں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ زندگی کے بارے میں گلزار کا فلسفہ بہت سادہ ہے ، ان کا اپنا قول ہے: حال، ماضی کی پرچھائیوں کے بغیر نامکمل ہے !

     ہمارے ہاں معیار اور مثالیے بہت ہی رکیک اور پست ہیں۔ 
    ہم کسی عالم، ادیب، مفکر، مصنف، قانون داں، شاعر، افسانہ نگار اور سائنس داں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ 

    ہم نقالوں، لطیفہ گویوں، اداکاروں، مسخروں اور بےہنگام نچنیوں اور گویوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ 

    سو ہمیں اپنے انجام اور مقسوم کو سمجھنے میں کوئی الجھن نہیں ہونا چاہیے۔
                                              __________________
                                      1996 جون ایلیا (سسپنس ڈائجسٹ مئی                                

8 psychological tricks in Urdu which will make your life easy || Top 8 psychology tricks

8 psychological tricks in Urdu which will make your life easy || Top 8 psychology tricks https://youtu.be/PnxGaJCLoQw ...