Friday, 29 August 2014


فراق گورکھپوری کے اندر ایک بہت بڑی خاصیت یہ بھی تھی کہ وہ انتہائی حاضر جواب واقع ہوئے تھے اور دل کی ہر اچھی و بری بات کو بے باکانہ طور پر بیان کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ 

ایک مرتبہ فراق صاحب لال قلعہ کے مشاعرے میں شرکت کے لئے دہلی تشریف لائے۔ وہاں ان کی ملاقات ساحر لدھیانوی سے ہوئی۔ انہوں نے ساحر سے کہا کہ— ارے ساحر آج کل تو تم آثار قدیمہ کی بہت اچھی شاعری کر رہے ہو۔ 

تاج محل پر کیا خوب لکھا ہے __

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

ایسا کرو کہ اب جامع مسجد پر بھی لکھ ڈالو __

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی عبادت کا اڑایا ہے مذاق
میرے اللہ _ کہیں اور ملا کر مجھ سے

Tuesday, 26 August 2014

چلو مُحسن مُحبت کی نئی بنیاد رکھتے ھیں
کہ خود پابند رھتے ھیں ، اُسے آزاد رکھتے ھیں
ھمارے خون میں رَب نے عجب تاثیر رکھی ھے
جفائیں بُھول جاتے ھیں ، وَفائیں یاد رکھتے ھیں

”مُحسن نقوی“

ایک دفعہ کسی نے احمد فرازؔ سے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی سوانح عمری کیوں نئی لکھی 

تو احمد فراز نے کہا: آدھا سچ میں لکھنا نہیں چاہتا اور پورا سچ سننے کے لئے ابھی ہماری قوم تیار نہیں ہوئی

Monday, 25 August 2014



احمد فرار بچپن ہی سے ایک بگڑا ہوا بچہ تھا سکول کے زمانے میں پڑھائی میں اس کا جی نہیں لگتا تھا نت نئ شرارتوں سے پوری کلاس کو سر پر اٹھا لیتا نہ خود پڑھتا نہ کسی کو پڑھنے دیتا استادوں کا اس نے ناطقہ بند کر رکھا تھا اسے مار مار کر وہ عاجز آگۓ تھے اور حیران تھے کہ اس لونڈے کا کیا کریں ایک استاد بائیں کان سے بہرہ تھا ایک دفعہ اسے جو شرارت سوجھی تو اس کے بہرے کان کی طرف منہ کر کے کوئی ناروا بات کہہ دی، لیکن معاملہ گڑبڑ ہو گیا وہ اس کا دایاں کان تھا جو بہرہ نہیں تھا استاد بھڑک اٹھا اور فراز کی خوب پٹائی ہوئی
(فارغ بخاری)

ہوم ورک کر کے نہ لانے پر، فراز کو صبح ہی سخت سردی میں ہاتھوں پر بید کھانے پڑے دوسرے دن اس نے ماسٹر سے بدلہ لینے کی ایک نئ ترکیب سوچی، اسکول آٹھ بجے لگتا تھا لڑکے ساڑھے سات بجے تک گراؤنڈ میں پہنچ جاتے اور اسمبلی سے پہلے مختلف کھیل کھیلتے رہتے فراز نے اس صبح کلاس کے تمام لڑکوں کو سکھا دیا کہ جب ماسٹر گرلکھ سنگھ اسمبلی کے بعد میدان میں حاضری لے تو کوئی بھی اپنا رول نمر سن کر "یس سر" نہ کہے سو ایسا ہی ہوا پہلا نام سمیع الدین کا تھا دوسرا عبدالرزاق، غرض ایک خاموشی تھی گرلکھ سنگھ اس بے عزتی پر جھلا گیا فراز چونکہ نیا نیا داخل ہوا تھا اس لیے اس کا نام سب سے آخر میں تھا لہذا جب ماسٹر نے آخری نام پکارا تو اس نے کہا "یس سر" پرنسپل بھی وہاں موجود تھا اس نے یہ کاروائی دیکھی فراز کو پر نسپل اپنے کمرے میں لے گیا اور پوری کلاس کے ہاتھوں پر بید مارے اب فراز کو پتہ تھا میری خیر نہیں اس لیے وہ چپکے سے گھر بھاگ گیا اور کئ دن تک اسکول نہیں آیا
(توصیف تبسم)

فراز کی کسی بات پر پٹائی ہوتی تو اکثر بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہو جاتی تھی بید ہاتھ پر پڑتا تو بید کا دوسرا سرا مضبوطی سے ہاتھ میں تھام لیتا اب استاد اور شاگرد میں کھینچا تانی شروع ہو جاتی ماسٹر جھلا اٹھتا اور دیکھنے والے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے کلاس روم میں ڈیسک تھے جو تین قطاروں میں تھے کلاس انچارج گرلکھ سنگھ کی عادت تھی کہ وہ پیریڈ کے دوران، کلاس میں ڈیسکوں کے درمیان گھومتا رہتا تھا وہ جب فراز کے پاس سے گزرتا تو وہ فاؤنٹین پین اٹھا کر روشنائی اس کی پتلون یا قمیض کے پچھلے حصے پر چھڑک دیتا سفید پتلون پر روشنائی کے نقش و نگار دور ہی سے نظر آ جاتے تھے
(توصیف تبسم)

ماسٹر سونڈی تاریخ پڑھاتا تھا جہاں پیراگراف ختم ہوا "اور بابر نے پانی پت کی تیسری لڑائی جیت لئ" تو فراز ایک لمبی سی "اچھا" کہتا یہ اس بات کا اشارہ ہوتا کہ بات ہم سب کی سمجھ میں آ گئ ہے اور ماسٹر جوابا" لمبی سی "ہاں..ں..ں" کہتا ایک مرتبہ "ہاں" کچھ زیادہ ہی لمبی ہو گئ تو پوری کلاس کی ہنسی نکل گئ جس پر سونڈی کو غصہ آ گیا اور اس نے فراز کو بید مارنے شروع کر دئیے فراز نے حسب عادت بید کا سرا مٹھی میں پکڑ لیا اور اس کھینچاتانی میں ماسٹر کا غصہ بڑھتا گیا مارتے مارتے سونڈی نے فراز کو اسکول کے بڑے گیٹ سے باہر دھکیل دیا اور حکم دیا کہ کل باپ کو ساتھ لے کر آنا دوسرا دن آیا تو فراز کے ساتھ ایک لفنگا تھا جس کی شلوار کا ایک پائنچہ اوپر اور ایک نیچے تھا کندھے پر میلی چادر اور ہاتھ میں بٹیر اس لفنگے نے اسکول آکر اودھم مچا دیا عملے کے لوگ اس کو ہیڈ ماسٹر کے پاس لے گۓ ہیڈ ماسٹر نے فراز سے پوچھا: یہ کون ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ سر آپ ہی نے تو کہا تھا کہ باپ کو ساتھ لے کر آنا
(توصیف تبسم)

میں نے پیالی اٹھائی، چاۓ کا ایک گھونٹ لیا اور برا سا منہ بنا کر پیالی میز پر رکھ دی "اس میں تو چینی نہیں ہے"
فراز بولا "سامنے اتنے چینی پھر رہے کسی کو اٹھا کر ڈال لو(ہم اس وقت چین میں موجود تھے)
میز پر دودھ نہ دیکھ کر وہ چینی ویٹرس کو خاصی دیر سمجھانے کی کوشش کرتا رہا تھا کہ ہم چاۓ میں دودھ بھی ڈالتے ہیں جب ویٹرس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو اس نے انگھوٹھا منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا اور وہ زرد رو چینی لڑکی سچ مچ سرخ ہو گئ تھی اور اس کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ ہم کیا مانگ رہے ہیں
(مسعود اشعر)

فراز صاحب سو رہے تھے فون کی گھنٹی بجی غصے میں فون اٹھایا تو دوسری طرف سے آواز آئی "میں یوسف لودھی بول رہا ہوں، ایک الجھن تھی اس لیے تمہیں فون کیا"
فراز نے کہا "فرمائیے"
لودھی نے کہا "بس اتنا بتا دو کہ یہ جو قہقہہ کا لفظ وہ قلم والے "کاف" سے ہے یا کتے والے "کاف" سے ؟
(اہل پنجاب کے یہاں "ق" اور "ک" کے مخرج میں کوئی خاص فرق نہیں)
فراز نے جل کر کہا "یوں تو قہقہہ قلم والے کاف سے ہے، اگر یہ قہقہے تمہارے ہیں تو پھر کتے والے کاف سے ہیں"
(توصیف تبسم)

ریاض انور نے خواجہ فرید کی ایک کافی فراز کو اردو ترجمہ کرنے کے لۓ دی اب سرائیکی میں محبوب کو "پنل"(پ ن ل) بھی کہتے ہیں ترجمہ کرتے ہوۓ کافی میں یہ لفظ آیا تو فراز سیدھا ریاض انور کی بیوی کے پاس پہنچا "بھابی یہاں "نپل"(ن پ ل) کا کیا مطلب ہے ؟ یہ نپل یہاں کیسے آ گیا ؟ وہ شریف عورت پہلے تو شرمائی پھر شرماتے شرماتے اس نے اس کا مطلب بتا دیا
(مسعود اشعر)

ڈیرہ غازی خان میں پچیس روپے کا ایک مشاعرہ پڑھنے میں اور محسن نقوی پہنچے وہاں احسان دانش، قتیل شفائی، عدم صاحب، فراز صاحب سبھی بڑے شاعر موجود تھے عدم کی جب باری آئی تو محفل عروج پر تھی عدم کو بہت داد ملی لوگ مسلسل انہیں داد دے رہے تھے عدم صاحب سے کھڑا نہیں ہوا جاتا تھا کسی نے کہا عدم صاحب کو کرسی لا کر دیں فراز نے بلند آواز سے کہا انہیں کرسی کی نہیں آیت الکرسی کی ضرورت ہے
(اصغر ندیم سید)

ایک دفعہ فراز کو اسلام آباد آنا تھا دوپہر کے کھانے کا وقت تھا ہم نے کہا چلو چائینز ریسٹورنٹ میں چل کر سوپ پی لیتے ہیں سوپ کے پیالے میں آخر میں ایک کنکر نظر آ گیا ہم دونوں نے شور مچا دیا وہ بے چارے ترلے منتیں کرتے رہے کہ دوسرے نہ سن لیں، جلدی سے ایک اور سوپ کا بھرا ہوا پیالہ لے آۓ، ہم نے وہ بھی سوپ پی لیا جب ہم اٹھ کر جانے لگے تو فراز نے کہا "اب ہم آئندہ اپنا کنکر ساتھ لے کر آئیں گے"
(کشور ناہید)

ضیاء جعفری نے حسب معمول تقریر لکھی اور فراز کو دے دی کہ ذرا اس کو دیکھ لو فراز کو جو شرارت سوجھی تو اس نے جہاں "کا" وہاں "کی" کر دیا اور جہاں "کی" تھا وہاں " کے" کر دیا اور جہاں "کے" تھا وہ "کا" بنا دیا اب جو ضیاء جعفری اسکرپٹ لے کر مائیک پر آۓ تو کچھ اس قسم کی تقریر ہوئی:
"محرم الحرام کی مہینہ، معاف کیجۓ کا مہینہ تمام دنیا کا مسلمانوں، نہیں کے مسلمانوں کے لۓ ایک متبرک اور حد درجہ محترم مہینہ ہے یہ سانحہ جس کا نظیر، جی نہیں جس کی نظیر دنیا کے تاریخ، معاف کیجۓ، دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی، ایک انتہائی دلگداز واقع ہے"
(توصیف تبسم)

میں اپنے بچوں کے ساتھ لنچ کر رھی تھی کہ فراز ثمینہ پیر زادہ اور ثمینہ راجہ کے ساتھ داخل ہوۓ، ملاقات ہوئی تو میں نے کہا "واہ کیا کہنے ایک چھوڑ دو دو ثمینائیں"
کہنے لگے "ہاں بھئ دن میں تو ثمینائیں ہوتی ہیں، شام کو مینائیں(مینا کی جمع) ہوتی ہیں" فراز نے فورا" ثمینہ کا قافیہ ساغر و مینا سے ملاتے ہوۓ کہا
(شمیم اکرام الحق)

ایک بار کسی محفل میں جب میں داخل ہوئی تو فراز نے حسب عادت اٹھ کر کہا "لو جی میری بہن بھی آ گئیں" کچھ دیر بعد ایک صحافی آۓ تو انہوں نے بھی مجھے "باجی" کہہ کر سلام کیا اس پر فراز کی ایک دوست نے مجھ پر طنز کرتے ہوۓ کہا "کیا بات ہے سب تمہیں بہن کہتے ہیں اتنے بہت سے بھائی؟" اس سے پہلے میں کوئی جواب دیتی فراز فورا" بولے "تو اس میں کیا برائی ہے، برائی تو یہ ہے کہ کسی خاتون کے بہت سے عاشق ہوں" ان خاتون کا رنگ ایک دم زرد پڑ گیا اور محفل قہقہوں سے بھر گئ
(شمیم اکرام الحق)

1996ء میں لندن میں پاکستانی سفارت خانے میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا وہاں پر احمد فراز نے جب اپنی غزل "سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں" سنائی تھی تو آخری شعر کا پہلا مصرعہ پڑھنے پر، "اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں" سامعین میں سے بے شمار لڑکیوں کی آواز ایک ساتھ گونج اٹھی تھی "ٹھہر جائیں، پلیز ٹھہر جائیں"
(ثروت محی الدین)

ایک دن فراز صاحب اپنے ایک دوست کے گھر گئے، اس کے ملازم نے کہا، صاحب سیر سور کرنے گئے ہیں۔ فراز نے کہا ،اس کو درست کر لو۔’’ سور سیر کرنے گئے ہیں‘‘

میڈم نورجہاں سے فراز نے پوچھا ،میڈم آپ نے کتنے عشق کئے ہیں میڈم نہ نہ کرتی رہیں،
فراز نے کہا، میڈم نہ نہ کرتے ہوئے بھی آپ کے تیرہ عشق ہو گئے ہیں۔

کراچی کے ایک مشاعرے میں ۔ ایک شاعر اجمل سراج ( جسارت سے وابستہ ہیں )۔
نے فراز صاحب سے ایک انتہائی بھونڈا سوال کیا (‌ویسے اس سوال کی بازگشت خاصی ہے) کہ فراز صاحب:
’’ کیا با ت ہے آپ ایک خاص دائرے ( ٹین ایج )عنفوان ِ شباب کے شاعر ہیں ‘‘ ۔۔ ؟؟
فراز صاحب نے جیسے کوئی تاثر بھی نہ ظاہر کیا اور سلیم کوثر صاحب سے مخاطب ہوکر کہا ۔
’’ میرے لیے یہ بات حیران کن ہے میری شاعری کا دائرہ دریافت کرلیا گیا ہے ، جبکہ میں خود کو کسی دائرے کا شاعر نہیں خیال کرتا ‘‘

آج اردو کے نامور شاعر احمد فراز کی چھٹی برسی ہے ۔

احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ء کو نوشہرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سید محمد شاہ برق کوہائی فارسی کے ممتاز شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ احمد فراز نے اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور ریڈیو پاکستان سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بعدازاں وہ پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرار منسلک ہوگئے۔ وہ پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فاﺅنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔

احمد فراز عہد حاضر کے مقبول ترین شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ انہیں بالعموم رومان کا شاعر کہا جاتا ہے مگر وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف ہر دور میں احتجاج کا پرچم بلند کرتے رہے جس کی پاداش میں انہیں مختلف پابندیاں بھی جھیلنی پڑیں اور جلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔

احمد فراز کے مجموعہ ہائے کلام میں تنہا تنہا، درد آشوب، نایافت، شب خون، مرے خواب ریزہ ریزہ، جاناں جاناں، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، سب آوازیں میری ہیں، پس انداز موسم، بودلک، غزل بہانہ کروں اور اے عشق جنوں پیشہ کے نام شامل ہیں۔ ان کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔

احمد فراز کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، سرارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔ ہلال امتیاز کا اعزاز انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی تھی

احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

Sunday, 24 August 2014





آج سے قریباً 22 برس قبل شہزاد صاحب کی حرکت قلب ہسپتال میں باقاعدہ بند ہو گئی اور یہ کیفیت ان پر چند منٹ تواتر سے جاری رہی۔ ڈاکٹروں نے حسب توفیق ان کی موت کا اعلان بھی کر دیا مگر حرکت قلب چند منٹ بعد پراسرار طور پر بحال ہو گئی۔ شہزاد صاحب نے بتایا کہ اصطلاحاً اس ”واردات ِ قلبی“ کو ”کلینکل ڈیتھ“ (Clinical death) قرار دیا جاتا ہے اس تجربے کو شعری سانچے میں آپ نے کیاخوب ڈھالا:

بس ایک لمحے میں کیا کچھ گزر گئی دل پر
بحال ہوتے ہوئے ہم نے ـــــــــــ اک زمانہ لیا!


"قبریں"

کیسے چپ چاپ ہی مر جاتے ہیں کچھ لوگ یہاں
کیسے چپ چاپ ہی مر جاتے ہیں کچھ لوگ یہاں
جسم کی ٹھنڈی سی تاریک سیاہ قبر کے اندر
نہ کسی سانس کی آواز
نہ سسکی کوئی
نہ کوئی آہ
نہ جنبش
نہ آہٹ کوئی
ایسے چپ چاپ ہی مر جاتے ہیں کچھ لوگ یہاں
ان کو دفنانے کی ذحمت بھی اٹھانا نہیں پڑتی
ایسے چپ چاپ ہی مر جاتے ہیں کچھ لوگ یہاں

شاعر: گلزار

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سےبڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں۔۔۔ ۔
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں۔۔۔ ۔
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا
زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے۔۔۔ ۔۔
بہت کچھ تہ بہ تہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا، کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم-سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہو گا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے

شاعر: گلزار

Friday, 22 August 2014


دنیا آگ کی مانند ہے اور آگ اپنے پجاری کو بھی جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ اس شکارگاہ میں ہر کوئی شکار ہے کہ ملک الموت جیسا میر شکار کوئی دوسرا نہیں کہ اس کے نشانے سے نہ کوئی بچا نہ آئندہ بچ پائے گا۔ وہ کون ہے جو سرائے کو گھر سمجھ لیتا ہے اور گزرگاہ کو منزل؟ 
انسان دنیا جمع کرتے وقت یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آخرکار یہ دنیا انہیں منتشر کرکے رکھ دے گی۔

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا

دنیا… دنائیت سے ہے جس کا مطلب ہی ذلت اور کمینگی ہے۔ خواب کا علم آنکھ کھلنے پر ہوتا ہے اور زندگی کے خواب کا آنکھیں بند ہونے پر کہ یہ تو پانی پر عکس سے بھی زیادہ بے معنی ہے۔ سو یوں رہو جیسے پرندہ انڈے میں رہتا ہے یا سر بانسری میں سوئے ہوتے ہیں۔
خلیفہ واثق باللہ نے مرتے وقت جو شعر پڑھے ان کا ترجمہ کچھ یوں ہوگا کہ ”نہ بازاری لوگ بچیں گے نہ بادشاہ ہی زندہ رہیں گے۔

"غریبوں کو ان کی قبرں نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور امیروں کو ان کی قبریں کوئی راحت نہ پہنچا سکیں۔“

حسن نثار کے کالم "گھر جاندی نے ڈرنا" سے اقتباس

ادا جعفری 22 اگست 1924ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا اصل نام عزیز جہاں ہے۔ ادا تین سال کی تھیں جب انکے والد مولوی بدرالحسن کا انتقال ہو گیا جس کے بعد انکی پرورش اپنے ننھیال میں ہوئی۔

ادا جعفری نے تیرہ برس کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی اور وہ ادا بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں۔ اُس وقت ادبی رسالوں میں ان کا کلام شائع ہونا شروع ہوگیا تھا۔ آپ کی شادی 1947ء میں نور الحسن جعفری سے انجام پائی جس کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں۔ ادا جعفری اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی رہیں ۔

ادا جعفری کے شعری سفر کا باقاعدہ آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے وقت ہوا اور وہ کم و بیش پچاس سال سے شعر کہہ رہی ہیں۔ انکا شمار موجودہ دور کے صفِ اول کے معتبر شعراء میں ہوتا ہے۔ انکی شاعری میں شعورِ حیات اور دل آویزی، حرف و صورت کی شگفتگی اور فکر و خیال کی تازگی موجود ہے۔

ادا صاحبہ کے مجموعہ ہائے کلام میں "شہرِ درد، میں ساز ڈھونڈتی رہی اور غزالاں تم تو واقف ہو" شامل ہیں۔ اُنکی کلیات کا مجموعہ "موسم موسم" کے نام سے 2002ء میں شائع ہوا۔ انہوں نے اپنی خود نوشت "جو رہی بے خبری رہی" کے نام سے تحریر کی۔ ادا جعفری نے جاپانی صنفِ سخن ہائیکو پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ " سازِ سخن بہانہ ہے" ان کی ہائیکو کا مجموعہ ہے۔

ان کے شعری مجموعے "شہر ِدرد" کو 1968ء میں آدم جی ایوارڈ ملا۔ 1991ء میں حکومتِ پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغۂ امتیاز سے نوازا۔ ادا جعفری کراچی میں مقیم ہیں۔

آج اردو اور پنجابی کے نامور ادیب، افسانہ و ڈرامہ نگار، دانشور، براڈ کاسٹر اور صوفی جناب اشفاق احمد کی سال گرہ ہے ۔

اشفاق احمد 22 اگست 1925ء کو مکتسر ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا، اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے، اور نیویارک یونیورسٹی سے براڈکاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔ انہوں نے دیال سنگھ کالج لاہور میں دو سال تک اردو کے لیکچرر کے طور پر کام کیا اور بعد میں روم یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوگۓ۔وطن واپس آکر انہوں نے ادبی مجلہ داستان گو جاری کیا جو اردو کے آفسٹ طباعت میں چھپنے والے ابتدائی رسالوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے دو سال ہفت روزہ لیل و نہار کی ادارت بھی کی۔

وہ انیس سو سڑسٹھ میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد میں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہوگیا۔ وہ انیس سو نواسی تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔ وہ صدر جنرل ضیاءالحق کےدور میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی مقرر کیے گۓ۔اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے اور انیس سو ترپن میں ان کا افسانہ گڈریا ان کی شہرت کا باعث بنا۔ انہوں نے اردو میں پنجابی الفاظ کا تخلیقی طور پر استعمال کیا اور ایک خوبصورت شگفتہ نثر ایجاد کی جو ان ہی کا وصف سمجھی جاتی ہے۔ اردو ادب میں کہانی لکھنے کے فن پر اشفاق احمد کو جتنا عبور تھا وہ کم لوگوں کے حصہ میں آیا۔

ایک محبت سو افسانے اور اجلے پھول ان کے ابتدائی افسانوں کے مجموعے ہیں۔ بعد میں سفردر سفر (سفرنامہ) ، کھیل کہانی (ناول) ، ایک محبت سو ڈرامے (ڈرامے) اور توتا کہانی (ڈرامے) ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔ انیس سو پینسٹھ سے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک ہفتہ وار فیچر پروگرام تلقین شاہ کے نام سے کرنا شروع کیا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور دومعنی گفتگو کے باعث مقبول عام ہوا اور تیس سال سے زیادہ چلتا رہا۔

ساٹھ کی دہائی میں اشفاق احمد نے دھوپ اور سائے نام سے ایک نئی طرح کی فیچر فلم بنائی جس کے گیت مشہور شاعر منیر نیازی نے لکھے اور طفیل نیازی نے اس کی موسیقی ترتیب دی تھی اور اداکار قوی خان اس میں پہلی مرتبہ ہیرو کے طور پر آئے تھے۔ اس فلم کا مشہور گانا تھا اس پاس نہ کئی گاؤں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے۔ تاہم فلم باکس آفس پر ناکامیاب ہوگئی۔

ستر کی دہائی کے شروع میں اشفاق احمد نے معاشرتی اور رومانی موضوعات پر ایک محبت سو افسانے کے نام سے ایک ڈرامہ سیریز لکھی اور اسی کی دہائی میں ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا نشر ہوئی۔ توتا کہانی اور من چلے کا سودا میں وہ تصوف کی طرف مائل ہوگۓ اور ان پر خاصی تنقید کی گئی۔ اشفاق احمد اپنے ڈراموں میں پلاٹ سے زیادہ مکالمے پر زور دیتے تھے اور ان کے کردار طویل گفتگو کرتے تھے۔ کچھ عرصہ سے وہ پاکستان ٹیلی وژن پر زاویے کے نام سے ایک پروگرام کرتے رہے جس میں وہ اپنے مخصوص انداز میں قصے اور کہانیاں سناتے تھے۔

حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات عطا کیے تھے ۔ اشفاق احمد 7 ستمبر 2004ء کو لاہور میں وفات پاگئے اور ماڈل ٹاﺅن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے ۔

Thursday, 21 August 2014





حریت میں ملازمت کے بیان میں رضا علی عابدی صاحب نے اپنے ساتھی عنایت اللہ کا ذکر کیا ہے جو اخبار کو پریس میں بھیجنے سے قبل ہمیشہ کہا کرتے تھے ۔: ’’ اس میں شک ڈالو‘‘۔۔مطلب یہ کہ اچھی طرح دیکھ لو کہ کہیں کوئی غلطی تو نہیں۔
بقول رضا علی عابدی ، ’ وہ کم بخت ہمیشہ نکلتی تھی۔‘

اسی ضمن میں لکھتے ہیں:

’’ایک بار میں اخبار پر آخری نظر ڈال رہا تھا ، دیکھا کہ ایک چھوٹی سی خبر پر سرخی لگی ہے جس میں لکھا ہے "علامہ رشید شرابی علیل ہیں" ، ‘رشید ترابی کے نام کا یہ حشر پہلے تو کاتب نے کیا، پھر پروف ریڈر نے کیا۔

ایک مرتبہ ایک اور سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا ، رات پوری طرح ڈھل چکی تھی ، آنکھیں منتظر تھیں کہ کام ختم ہو او ر گھر جائیں، آخری دو صفحات پر کڑی نظر ڈالی جارہی تھی، سرخی لگی تھی: "صدر ایوب غلیل ہوگئے۔"
اگر یہ خبر یونہی چھپ جاتی تو میں اپنی زندگی کا آخری مصرعہ کہتا:
"ایک ُغلہ میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے "

رضا علی عابدی نے مصطفی زیدی کے ساتھ نیم مردہ حالت میں پائی جانے والی خاتون شہناز کا احوال بھی اپنے دلچسپ انداز میں لکھا ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ پہلے یہ خبر بطور ایک چھوٹی خبر موصول ہوئی کہ ایک سرکاری افسر نے خودکشی کرلی ہے، جب خبر پھیلی کہ متوفی مصطفی زیدی ہیں تو تمام اخبارات اس خبر کی تفصیل کے پیچھے پڑ گئے اور بقول عابدی صاحب ایسی ایسی داستانیں نکال کر لائے کہ مصطفی زیدی اگر اس وقت بچ جاتے تو اب مرجاتے۔ عدالت میں "حریت" کے فوٹو گرافر نے شہناز گل کی ایک قد آدم تصویر کھینچ لی۔ رضا علی عابدی بیان کرتے ہیں کہ اس واقعے کے کافی عرصے کے بعد افتخار عارف نے ایک تقریب میں شہناز گل سے کہا کہ ’ابھی تو آپ پر دس بیس شاعر اور قربان ہوسکتے ہیں۔‘ —

یوں تو آپس کی روٹھ راٹھ ، چھوٹی موٹی ناراضگیاں ہمارے درمیان درجنوں بار ویسے ہی ہوئیں جیسے ہر میاں بیوی کے درمیان ہونا چاہیے۔ لیکن ہماری اصل بڑی لڑائی ایک بار ہوئی، اسلام آباد میں ہم نے اپنے ڈرائنگ روم کے لئے قالین خریدنا تھا، میں نے بڑے شوق سے ایک قالین پسند کیا جس کی زمین سفید اور رنگین پھول تھے، عفت نے اُسے یوں مسترد کر دیا جیسے سبزی فروش کو اُلٹے ہاتھوں باسی پالک، مولی، گاجر اور گوبھی کے پھول لوٹا رہی ہو، مجھے بڑا رنج ہوا۔ گھر آ کر میں نے سارا دن اُس سے کوئی بات نہ کی۔
رات کو وہ کہنے لگی
دیکھ تیرا منہ پہلے ہی بڑا گول ہے، جب تُو ناراض ہوتا ہے تو یہ اور بھی گول مٹول ہو جاتا ہے، آج بھلا تُو اتنا ناراض کیوں ہے؟
میں نے قالین کی بات اُٹھائی۔
قالین تو نہایت عمدہ ہے
اُس نے کہا
لیکن ہمارے کام کا نہیں
میں نے پوچھا
کیوں؟
دراصل بات یہ ہے
وہ بولی، جن لوگوں کے لئے یہ قالین بنا ہے، اُن میں سے کوئی ہمارے ہاں نہیں آتا۔
کیا مطلب؟ میں نے تلخی سے دریافت کیا
وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی اور اسکول کی اُستانی کی طرح بڑی وضاحت سے گِن گِن کر سمجھانے لگی کہ ہمارے ہاں ابنِ انشاء آتا ہے، وہ پھسکڑا مار کر فرش پر بیٹھ جاتا ہے، ایک طرف مالٹے، دوسری طرف مونگ پھلی، سامنے گنڈیریوں کا ڈھیر، جمیل الدین عالی آتا ہے، آتے ہی فرش پر لیٹ جاتا ہے اور سگریٹ پر سگریٹ پی کر اُن کی راکھ ایش ٹرے میں نہیں بلکہ اپنے ارد گرد قالین پر بکھیرتا ہے۔ ممتاز مفتی ایک ہاتھ میں کُھلے پان اور دوسرے ہاتھ میں زردے کی پڑیا لئے آتا ہے۔ اشفاق احمد قالین پر اخبار بچھا کر اس پر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔ ملتان سے ایثار راعی آم اور خربوزے لے کر آئے گا، ڈھاکہ سے جسیم الدین کیلے اور رس گُلوں کی ٹپکتی ہوئی ٹوکری لائے گا، وہ یہ سب تحفے لا کر بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں، سال میں کئی بار ممتاز حسین شاہ بی۔ اے، ساٹھ سال کی عمر میں ایم ۔ اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور فاؤنٹین پین چِھڑک چِھڑک کر اپنی پڑھائی کرتا ہے، صرف ایک راجہ شفیع ہے جب کبھی وہ مکئی کی روٹی، سرسوں کا ساگ اور تازہ مکھن اپنے گاؤں سے لے کر آتا ہے تو آتے ہی انہیں قالین پر نہیں اُنڈیلتا بلکہ بڑے قرینے سے باورچی خانے میں جا کر رکھ دیتا ہے، کیونکہ نہ تو وہ شاعر ہے نہ ادیب، فقط ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔ بات نہایت سچی تھی، چناںچہ ہم نے ایک نہایت میل خوردہ قالین خرید کر آپس میں صلح کر لی۔

شہاب نامہ سے اقتباس۔۔ از قدرت اللہ شہاب۔


اسلام آباد کے قبرستان میں پروین کو رخصت کرنے والے بہت کم لوگ تھے، اُس کی عزیز داری کراچی میں تھی اور وہاں سے یہاں آج ہی کے دن پہنچنا مشکل تھا، کچھ ادیب تھے اور اُس کے محکمے کے کچھ لوگ۔۔۔

آخری لمحوں میں اُس کے ایک بھائی بھی پہنچ گئے۔۔۔ لیکن اس سے پیشتر یہی مسئلہ در پیش تھا کہ اُسے لحد میں کون اتارے گا کیونکہ کوئی نامحرم ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔ ہم چار پانچ لوگ قبر کی مٹی کے ڈھیر پر کھڑے تھے اور میرے برابر میں افتخار عارف اپنے آپ کو بمشکل سنبھالتے تھے۔

جنازہ تو ہو چکا تھا جو اہل تشیع کے عقیدے کی نمائندگی کرتا تھا۔۔۔
ہم نے کچھ دیر انتظار کیا اس اُلجھن کا شکار رہے کہ اگر اُن کا کوئی نزدیکی عزیز بروقت نہ پہنچا تو پروین کو لحد میں کیسے اتارا جائے گا۔۔۔ مجھے مکمل تفصیل تو یاد نہیں رہی کہ اس کے بھائی کب پہنچے لیکن یہ یاد ہے کہ کسی نے سفید کفن میں لپٹی پروین شاکر کو افتخار عارف کے بڑھے ہوئے ہاتھوں میں دے دیا۔۔۔

افتخار اُسے تھامے ہوئے قبر میں اترنے کو تھے کہ یکدم اُن کا رنگ زرد پڑ گیا، ہاتھ لرزنے لگے۔۔۔ شاید انہیں انجائنا کا درد شروع ہو گیا تھا، انہوں نے یکدم مجھ سے کہا ’’تارڑ ، پروین کو سنبھال لو۔۔۔‘‘ میں نے بازو واکیے اور پروین کے جسد خاکی کو تھام لیا۔۔۔ اور تب میں زندگی کے ایک ناقابل بیان تجربے سے دو چار ہوا جس کے بارے میں اب بھی سوچتا ہوں تو سناٹے میں آجاتا ہوں۔۔۔

پروین دھان پان سی لڑکی تھی، موت کے باوجود وہ بہت بھاری نہ تھی،
میں جان بوجھ کر اُس جانب نہ دیکھتا تھا جدھر اُس کا چہرہ کفن میں بندھا تھا اور پھر میں نے محسوس کیا کہ میرے دائیں ہاتھ کی اُنگلیاں کفن میں روپوش پروین کی مردہ اُنگلیوں پر ہیں، اُنہیں چھو رہی ہیں، انہیں تھام رکھا ہے۔۔۔

میں اُن کی بناوٹ محسوس کر رہا تھا اور اُس لمحے مجھے خیال آیا کہ یہ پروین کا لکھنے والا ہاتھ ہے۔۔۔ انہی اُنگلیوں سے اُس نے وہ سب شعر لکھے جو ایک ز مانے کے دل پسند ہوئے، ایک داستان ہوئے۔ اور پھر مجھے وہ شعر یاد آیا جو ایک خاتون نے لکھ کر مجھے رسوا اور شرمندہ کر دیا تھا، وہ شعر بھی تو انہی انگلیوں نے لکھا تھا۔

اور آج میں انہیں بے جان حالت میں اپنی انگلیوں سے تھامے ہوئے ہوں۔۔۔
یہ لمحہ، یہ کیفیت آج تک میرے بدن پر ثبت ہے، میں آج بھی پروین کی اُنگلیوں کی موت کو محسوس کرتا ہوں۔۔۔ اس دوران پروین کے بھائی کراچی سے آ چکے تھے، مجھ سے لحد میں اترا نہ جاتا تھا، کسی اور شخص نے میری مدد کی اور ہم نے اس کے مردہ بدن کو قبر میں کھڑے اُس کے بھائی یا عزیز کے سپرد کر دیا۔۔۔

مستنصر حسین تارڑ

Wednesday, 20 August 2014


عزیز سے عزیز ترین رشتہ بھی بھوک کے اس احساس کو مٹا نہی سکتا...... ہم اپنے آس پاس روز کیسے کیسے دلداروں کو جان سے زیادہ عزیز رشتوں کو خود سے جدا ہوتا اور مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ ان سے جڑے بے بس انسان جو اس لمحے خود کو بھی مٹتا محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔۔جن کی بھوک پیاس سب ختم ہو چکی ہوتی ہے، جنہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس بے جان جسم کے ساتھ ان کا لاشہ بھی قبر میں ُتار دیا گیا ہے اور وہ اب کبھی اس جیتی جاگتی دنیا کے ساتھ چل نہی پائیں گے- جن کا ہر احساس اُس لمحے مٹی ہو چکا ہوتا ہے۔۔۔ لیکن 24 یا 48 گھنٹوں کی مختصر مدت کے بعد یہ معدہ انسان کواس کی کم ظرفی، بے بسی اور مجبوری کا احسان دلانے کے لیے جاگ اُٹھتا ہے،،،،،، بھوگ اسے ستانے لگتی ہے........!!"

ہاشم ندیم کے ناول "خدا اور محبت" سے اقتباس


گلزار صاحب پاکستان کے شہر جہلم کے قریب دینہ میں 18 اگست 1936ء کو پیدا ہوۓ۔ اصلی نام سمپیورن سنگھ ہے۔ تقسیم برصغیر کے وقت وہ بھارت چلے گۓ۔ ابتدائی زندگی میں موٹر مکینک تھے۔ شاعری اور فلمی دنیا کی طرف رحجان انھیں فلمی صنعت کی طرف لے گیا۔ گلزار نے فلمی اداکارہ راکھی سے شادی کی۔

گلزار نے بطور ہدایتکار اجازت ، انگور ، دل سے ، معصوم آندھی، پریچے، موسم اور ماچس جیسی فلمیں بنائیں ۔ ان کا ٹیلی ڈرامہ مرزا غالب ایک کلاسیک کی حیثت رکھتا ہے۔

گلزار نے بطور شاعر بے شمار فلموں میں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی فلمی شاعری میں بھی ایک اچھوتا پن پایا جاتا ہے۔ ان کے انوکھے اور نادر تشہبات کا استعمال ان کے گیتوں میں نئے رنگ بھر دیتا ہے۔ ان کے گیت نہ صرف ماضی میں پسند کیے جاتے رہے ہیں بلکہ آج کے دور میں بھی ان کے گانوں کو نوجوان شوق سے سنتے ہیں۔

سنیما بین چار سال قبل ریلیز ہوئی مشہور فلم بنٹی اور ببلی کے سپرہٹ گانے ’کجرا رے’ کو نہیں بھولے یا پھر فلم اوم کارا کا انتہائی مقبول گانا ’بیڑی جلائی لے‘ یا پھر حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم کمینے کا ہٹ نغمہ ’رات کے بارہ بجے’ ہو جو آج بھی ٹاپ دس گانوں کی فہرست میں شامل رہتا ہے، گلزار کی قلم سے نکلا ہر نغمہ عوام کے دل و دماغ پر مخصوص چھاپ چھوڑ جاتا ہے۔ فلم سلم ڈاگ ملینئیر کے لیے لکھے گئے گیتوں پر ان کو آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

گلزار نے اردو میں شاعری کی اور گیت لکھے جو ہمیشہ کانوں میں رس گھولتے رہتے ہیں۔ انھیں 2004ء میں بھارتی حکومت کی طرف سے پدما بھوشن کا خطاب ملا۔ اُن کی بے لوث خدمات کے لیے 11ویں اوسِیانز سِنے فین فلم فیسٹیول کی جانب سے 2009ء کا لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ دینے کا اعلان کیا۔ ان کی گیتوں کے تراجم کی انگریزی میں کتاب بھی شائع ہو چکی ہے۔ گلزار کی غزلوں کا ایک بہت مشہور آڈیو البم "مراسم" کچھ سال قبل ریلیز ہوا تھا جس کی غزلوں کو جگجیت سنگھ نے اپنی آواز کے جادو سے پیش کیا ہے۔

گلزار ، اردو ، پنجابی ، بنگالی اور انگریزی ادب کے شیدائی ہیں اور ان زبانوں پر ان کو مکمل عبور بھی حاصل ہے جس کی واضح جھلک ان کے تخلیقی کاموں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ زندگی کے بارے میں گلزار کا فلسفہ بہت سادہ ہے ، ان کا اپنا قول ہے: حال، ماضی کی پرچھائیوں کے بغیر نامکمل ہے !

     ہمارے ہاں معیار اور مثالیے بہت ہی رکیک اور پست ہیں۔ 
    ہم کسی عالم، ادیب، مفکر، مصنف، قانون داں، شاعر، افسانہ نگار اور سائنس داں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ 

    ہم نقالوں، لطیفہ گویوں، اداکاروں، مسخروں اور بےہنگام نچنیوں اور گویوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ 

    سو ہمیں اپنے انجام اور مقسوم کو سمجھنے میں کوئی الجھن نہیں ہونا چاہیے۔
                                              __________________
                                      1996 جون ایلیا (سسپنس ڈائجسٹ مئی                                

ایک دفعہ ایک خانقاہ کے پچھواڑے مجھے رضائی دکھائی دی میرے پاس سونے کی جگہ نہیں تھی میں اسی تلاش میں تھا شدید سردی تھی میں نے رضائی دیکھی اور اس میں گھس گیا وہاں کوئی عورت لیٹی ہوئی تھی اس نے کہا "بھائی تینوں شرم نئیں آوندی؟" میں نے کہا "آوندی اے"

وہاں سے بھاگا اور سردی میں ٹھٹھڑتا ہوا ایک مسجد میں جا گھسا مسجد کے مولوی نے مجھے کہا کہ "یہ سونے کی جگہ نہیں ہے" میں نے کہا یہ اللہ کی جگہ ہے تمہارے باپ کی جگہ نہیں ہے میں اللہ کا بندہ ہوں اور یہاں رات گزارنا چاہتا ہوں مجھے سردی لگ رہی ہے وہ پھر کہنے لگا کہ "یہ سونے کی جگہ نہیں ہے اٹھیں یہاں سے یہاں کے امام مسجد صاحب کی اجازت نہیں ہے" میں نے ان سے بحث و تکرار کی تو مولویوں نے میرے ہاتھ اور ٹانگیں پکڑ لیں اور مجھے ــــــــــــــــــــــ اٹھا کر مسجد کے باہر پھینک دیا

حبیب جالب کی کتاب "جالب بیتی" سے اقتباس صفحہ 248

Sunday, 17 August 2014


قدرت اللہ شہاب 26 فروری 1917ء کو گلگت میں پیدا ہوئے تھے۔ 1941ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کرنے کے بعد وہ انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔ ابتدا میں انہوں نے بہار، اڑیسہ اور بنگال میں خدمات انجام دیں۔

قیام پاکستان کے بعد وہ متعدد اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہے جن میں حکومت آزاد کشمیرکے سیکریٹری جنرل، وفاقی سیکریٹری وزارت اطلاعات، ڈپٹی کمشنر جھنگ، ڈائریکٹر انڈسٹریز حکومت پنجاب اور گورنر جنرل غلام محمد، اسکندر مرزا اور صدر ایوب خان کے پرائیویٹ سیکریٹری، سیکریٹری اطلاعات، ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر اور سیکریٹری تعلیم کے مناصب شامل تھے۔

یحییٰ خان کے دور حکومت میں وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانے میں انہوں نے مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کی شرانگیزیوں کا جائزہ لینے کے لئے ان علاقوں کا خفیہ دورہ کیا اور اسرائیل کی زیادتیوں کا پردہ چاک کیا۔ شہاب صاحب کی اس خدمات کی بدولت مقبوضہ عرب علاقوں میں یونیسکو کا منظور شدہ نصاب رائج ہوگیا جو فلسطینی مسلمانوں کی ایک عظیم خدمت تھی۔

قدرت اللہ شہاب کا ایک اہم کارنامہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل تھا۔ وہ خود بھی اردو کے ایک اچھے ادیب تھے ان کی تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماں جی اور سرخ فیتہ کے علاوہ ان کی خودنوشت سوانح عمری شہاب نامہ شامل ہے۔

قدرت اللہ شہاب 24 جولائی 1986ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔

Friday, 15 August 2014


                                          چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ھم دونوں

                                         نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی
                                         نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے

                                        نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
                                        نہ ظاہر ھو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے

                                        تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
                                        مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ھیں

                                        مرے ھمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
                                        تمہارے ساتھ بھی گزری ھوئی راتوں کے سائے ھیں

                                        تعارف روگ بن جائے تو ا س کا بھولنا بہتر
                                        تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا

                                       وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نھ ھوممکن
                                       اسے ایک خوبصورت موڑ دیکر چھوڑنا اچھا

                                      چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ھم دونوں

                                                        "ساحر لدھیانوی"
                                                           "مکمّل نظم"

                                       نظم الجھی ھوئی ھے سینے میں 
                                       شعر اٹکے ھوئے ھیں ھونٹوں پر

                                     لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ھی نہیں
                                     اڑتے پھرے ھیں تتلیوں کی طرح

                                    کب سے بیٹھا ھوا ھوں میں جانم
                                    سادہ کاغذ پہ لکھ کے نام ترا

                                     بس ترا نام ھی مکمّل ھے
                                  اس سے بہتر بھی نظم کیا ھو گی ؟؟

                                          سمپورن سنگھ "گلزار

Friday, 8 August 2014

                                                               June Elia

Thursday, 7 August 2014


روسی کہانی کار میکسم گورکی کا شاہکار ناول "ماں" 1906 ممنظر عام پر آیا۔ یہ ناول دنیا کے سب سے اچھے ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
ناول کی کہانی ایک مزدور پاویل اسکے دوستوں اور پاویل کی ماں کے گرد گھومتی ہے۔
ماں اپنے بیٹے اور اسکے مشن یعنی انقلاب کے لیے اسختیاں برداشت کرتی ہے اور اپنے بیٹے کے گرفتاری کے بعد خود ایک انقلابی بن جاتی ہے۔
لینن سے میکسم گورکی کی اس ناول پر تعریف کی اور کہا کہ اس ناول کی اشد ضرورت تھی۔
ناول ایک سچی کہانی پر لکھا گیا تھا۔ انقلاب روس کے بعد بھی ناول کا مرکزی کردار زندہ تھا اور لوگ اس سے خط و کتابت کر کے انقلابی تحریک کے بارے دریافت کیا کرتے تھے۔

ناول کا تقریبا 300 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اردو میں اسکا ترجمہ "ماں " کے نام سے دستیاب ہے۔ ضرور پڑھیں۔۔

مولانا عبدالرحمٰن جامی مشہور فارسی شاعر اور صوفی بزرگ تھے اور عوام الناس کے ساتھ ساتھ صوفی منش لوگ بھی انکی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے۔
ایک دفعہ ایک مہمل گو شاعر جس کا حلیہ صوفیوں جیسا تھا، انکی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے سفرِ حجاز کی طویل داستان کے ساتھ ساتھ ان کو اپنے دیوان سے مہمل شعر بھی سنانے لگا، اور پھر بولا۔
"میں نے خانہ کعبۂ پہنچ کر برکت کے خیال سے اپنے دیوان کو حجرِ اسود پر ملا تھا۔"
یہ سن کر مولانا جامی مسکرائے اور فرمایا۔
"حالانکہ ہونا یہ چاہیئے تھا کہ تم اپنے دیوان کو آبِ زم زم میں دھوتے۔"

          

                                                موسم تھا بے قرار تجھے سوچتے رہے
                                                کل رات بار بار تجھے سوچتے رہے

                                          بارش ہوئی تو گھر کے دریچے سے لگ کے ہم
                                              چپ چاپ، سوگوار تجھے سوچتے رہے

                                                          (فرحت عباس شاہ)

Wednesday, 6 August 2014





ہم کئی دوست علیم کے ساتھ کھانا کھانے نکلے تھے ،اچانک میں نے سنا کہ کوئی میری تازہ غزل کا تذکرہ علیم سے کر رہا ہے ، میری وہ غزل سننے کے لیے علیم کا اشتیاق اور للک حیران کن تھی ،اور پھر اشعار کی سماعت کے دوران اُس کا تقریباً دیوانگی کے عالم میں اظہارِ پسندیدگی اور پھر مصرعوں کو بار بار دہرانا ... یقین کیجیے وہ غزل سنادینے کے بعد گویا مجھ میں ایک نئی زندگی دوڑ گئی۔ہم کھانا کھا کے علیم کے کمرے میں پلٹے ہی تھے کہ میں نے دیکھا، علیم فون پر افتخار عارف سے میرا تذکرہ کچھ اس انداز میں کررہا ہے جیسے اُس نے کوئی بڑا شاعر دریافت کرلیا ہو ۔ علیم عجیب باغ و بہار شخصیت کا مالک تھا، کھانا کھانے کے لیے ہوٹل جاتے ہوئے لوگوں اور ارد گرد کی چیزوں پر اُس کے دل چسپ تبصرے اور آموں کا ایک نسوانی حصہ سے مماثلت کا حوالہ ...یہ دن میری زندگی کا دل چسپ ترین دن تھا

بچہ جگت باز __ عبیداللہ علیم, تحریر: ممتاز رفیق



بے وارث لمحوں کے مقتل میں
مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ مَیں نے پہلا شعر کب کہا تھا۔ (یہ بہت پہلے کی بات ہے)۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ میں پہلا "سچ" کب بولا تھا؟ (یہ بھی شاید بہت پرانا قصّہ ہے)۔ پہلا شعر اور پہلا سچ کون یاد رکھتا ہے؟۔ اور اتنی دُور پیچھے مُڑ کر دیکھنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ اُدھر کون سی روشنی ہے۔ گھُپ اندھیرے کی ریت پر ہانپتے ہوئے چند بے وارث لمحے۔ پچھتاوے کی زد میں جانے کب اور کہاں کھو گئے۔؟
مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ کچھ بھی تو یاد نہیں
"ماضی" بھی تو کتنا بخیل ہے۔ کبھی کبھی تو حافظے کی غربت کو نچوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اور پھر اندھے کنویں کی طرح کچھ بھی تو نہیں اگلتا۔ اپنے اندر جھانکنے والوں سے پوری بینائی وصول کرتا ہے۔ بِیتے دنوں کے اُس گھُپ اندھیرے میں بھی کیا کچھ تھا۔

Monday, 4 August 2014



                                              Hoti hy laakh gham ki dawa neend b magar
                                              hotay hy aisay gham b k soonay nahi daitay

Friday, 1 August 2014

                         Deemak zadda Muhabat se Iqtibaas


آج معروف شاعر ، ناول نگار ، افسانہ نگار ، محقق اور ادیب خاطر غزنوی کی تاریخ پیدائش : 04 نومبر 1925ء تاریخ وفات : 06 جولائی 2008 ء 

خاطر غزنوی خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والے معروف دانشور ، محقق ، ناول نگار ، شاعر ، افسانہ نگار اور ادیب تھے ۔ آپ کا اصل نام مرزا ابراھیم بیگ ھے ۔ خاطر غزنوی آپ کا قلمی نام ھے ۔ آپ پشاور میں 04 نومبر 1925 ء کو ایک افغان خاندان میں پیدا ھوئے ۔ جو کہ غزنی سے ھجرت کر کے آئے تھے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پشاور میں ھی حاصل کی ۔ ادب کا شوق آپ کو بچپن سے ھی تھا اس لئے آپ نے اپنا پہلا ناول سکول دور میں لکھا ۔ آپ آل انڈیا ریڈیو میں 1942 سے پروڈیوسر کے طور پر کام کر رھے تھے جب پاکستان بنا تو آپ ریڈیو پاکستان سے منسلک ھو گئے ۔


وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

عداوتیں تھیں تغافل تھا رنجشیں تھیں مگر
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بیوفائی نہ تھی

بچھڑتے وقت اُن آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی

ترک تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں

کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ کہ آشنائی نہ تھی

نہ اپنا رنج نہ اپنا دکھ نہ اوروں کا ملال
شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی

محبتوں کا سفر کبھی اس طرح بھی گزارا نہ تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی

عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیر
وہاں بھی آگئے آخر جہاں رسائی نہ تھی

"نصیر ترابی"

دل دھڑکنے کا سبب ۔۔۔۔ یاد آیا
وہ تیری یاد تھی ۔۔۔۔۔۔ اب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر تیرا وعدہ شب ۔۔۔۔۔۔ یاد آیا
حال دل ہم بھی سناتے لیکن
جب وہ رخصت ہوا تب ۔۔ یاد آیا
بیٹھ کر سایہء گُل میں ۔ ناصر
ہم بہت روئے وہ جب ۔۔۔ یاد آیا
ناصر کاظمی

8 psychological tricks in Urdu which will make your life easy || Top 8 psychology tricks

8 psychological tricks in Urdu which will make your life easy || Top 8 psychology tricks https://youtu.be/PnxGaJCLoQw ...